بلاگ

زراعت اور متعلقہ پیشے

Published

on

زراعت اور اس سے متعلّق پیشے، محض روزگار کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایک بھرپور طرزِ زندگی ہیں۔ کھیت کھلیانوں سے واسطہ ہوں، جانوروں کی دیکھ بھال

 کے فرائض پورے کرنے ہوں یا پھولوں اور پودوں سے تعلق ہو، ہر شعبہ اپنی جگہ ایک دنیا ہے جہاں وہی لوگ کامیاب ہوسکتے ہیں جو صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کے اوقاتِ کار کے بجائے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں دن اور رات کے کسی بھی سمے اور کسی بھی موسم میں شوق اور د لچسپی سے انجام دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

زراعت اور اس کے متعلقہ پیشوں کا مستقبل پاکستان میں نہایت روشن ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ملک کا مجموعی رقبہ 12کروڑ 85لاکھ 78ہزار3سو 8 ہیکٹر ہے۔
جس میں سے 7 کروڑ96 لاکھ 10ہزار ہیکٹر رقبہ زرعی اراضی اور جنگلات پر مشتمل ہے۔ جنگلات کا رقبہ28 لاکھ 90ہزار ہیکٹر ہے۔ 5 کروڑ ۴۹ لاکھ 60ہزار ہیکٹر زرعی اراضی وہ ہے جس پر اس وقت کاشت ہوسکتی ہے لیکن اس میں سے صرف 4 کروڑایک لاکھ ہیکٹر رقبے پر کاشت ہو رہی ہے۔ 3 کروڑ48 لاکھ60 ہزار ہیکٹر سے زائد زرعی اراضی ایسی ہے جسے زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں زراعت کا مستقبل امکانات سے کس حد تک بھرپور ہے۔
1980ء کی زراعت شماری کے مطابق اس وقت ملک میں 42لاکھ60ہزار سے زائد خاندان، جن کی کل افرادی قوت 2کروڑ 97لاکھ 50ہزار سے زائد تھی، 2کروڑ 6لاکھ30ہزار ہیکٹر رقبے پر کاشت کی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ اس عرصے میں ایک کروڑ27 لاکھ 60 ہزار افراد پر مشتمل 19 لاکھ 60ہزار خاندان مویشیوں کی افزائش کا کام کر رہے تھے۔ یہ افرادی قوت ملک کی مجموعی آبادی کا 70فی صد ہے۔ براہ راست اور بالواسطہ طور پر ملک کی 80فیصد سے زائد آبادی زرعی سرگرمیوں سے روزی کماتی ہے۔
قومی زندگی میں زراعت کی اس غیر معمولی اہمیت کے پیشِ نظر اس شعبے کو خاطرخواہ ترقی دینے کی کوشش کی گئی ہے اور تعلیم یافتہ زرعی ماہرین کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ثانوی مدارس کی سطح سے یونی ورسٹی کی سطح تک پی ایچ ڈی تک کی تعلیم و تدریس کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
ملک کے منتخب مدارس میں ثانوی سطح پر ایگروٹیکنیکل نصاب پڑھایا جاتا ہے تاکہ ثانوی درجوں میں ہی طالب علم زراعت کی بنیادی باتوں سے واقف ہوجائیں اور جو طلبہ اس شعبے میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ اپنے مستقبل کے لیے ابھی سے ذہنی تیاری شروع کر دیں۔ یونی ورسٹی اور کالج کی سطح پر زراعت کے شعبے میں بی ایس سی (آنرز) ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی تک کی تعلیم کی سہولتیں موجود ہیں۔ اندرونِ ملک تین زرعی جامعات، ایک کلیہ زراعت ، چار زرعی کالج اور ایک جنگلات کا انسٹی ٹیوٹ تعلیمی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔
زراعت اور اس کے متعلقہ پیشوں کو ہم درجِ ذیل شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۔زراعت: زرعی زمینوں کے مسائل،فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے، کاشت کے جدید طریقے اختیار کرنے ، زرعی آلات، مشینوں کے معاملات، اچھے بیجوں کی تیاری، فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کے خلاف اقدامات، پودوں کی بیماریوں کا علاج، پیداوار کو بازار تک پہنچانے اور اس کی اچھی قیمت حاصل کرنے اور اس طرح کے دیگر معاملات سے متعلق امور زراعت کے شعبے میں آتے ہیں۔
2۔جانوروں کی دیکھ بھال: اس شعبے میں جانوروں کی افزائش نسل، ان کی بیماریاں، مویشیوں کی افزائش کے طریقے اور ان کی دیکھ بھال، جانوروں کی خوراک اور بیمار یا زخمی جانوروں کی جراحی کے امور شامل ہیں۔
3۔پودوں کی افزائش و آرائش: اس شعبے میں آرائشی پھولوں، پودوں، درختوں، سبزیوں، پھلوں کھمبیوں (مش رومز) اور لینڈا اسکیپنگ اور ٹشو کلچرل کے معاملاتک کی تعلیم دی جاتی ہے۔
4۔ جنگلاٹ (فارسٹری): اس میں چراگاہوں اور جنگلات کے امور مثلاً پودوں اور درختوں کی خصوصیات سے متعلق امور اور جنگلات کی دیکھ بھال اورشکار کے علاقوں کے انتظامی معاملے شامل ہیں۔ جنگلات کے علاوہ زراعت کے تین بڑے شعبوں کے متعدد ذیلی شعبے بھی ہیں جن کی تفصیل درجِ ذیل ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس شعبے میں پاکستان میں کس درجے تک تعلیم دی جاتی ہے۔
زراعت کے ذیلی شعبے
1۔ اگر انومی: اس شعبے میں جدید طریقوں کو اختیار کرکے فی ایکڑ زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے اور کم سے کم زمین سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے طریقوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔خواہش مند امیدوار بی ایس سی (آنرز) سے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔
2۔انٹامالوجی: اس شعبے میں پودوں اور پھلوں کو نقصان پہنچانے والے حشرات کا تعارف اور ان کے خاتمے کے لیے مختلف زرعی ادویات کے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شہد کی مکھیوں،لاکھ کے کیڑوں اور ریشم کے کیڑوں کی پرورش کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس میں بی ایس سی آنرز سے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔
3۔پلانٹ پیتھالوجی: زراعت کا وہ شعبہ ہے جس میں تمام قسم کے پودوں کی بیماریوں اور ان کے تدارک کے لیے تعلیم دی جاتی ہے۔ اس میں پی ایچ ڈی تک تعلیم کی سہولت ہے۔
4۔ سوائل سائنس:/ یہ شعبہ کلر، شور اور سیم زدہ علاقوں کو زرخیز بنانے، مختلف فیلڈز کی مٹی کا لیبارٹریز میں تجزیہ کرنے، آب پاشی کے لیے پانی کا تجزیہ اور پودوں کی ضروریات کے مطابق نامیاتی اور غیر نامیاتی اجزا کے متعلق پی ایچ ڈی تک تعلیم دیتا ہے

5۔پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس: زراعت کا وہ شعبہ جس میں پودوں (آرائشی پودوں، نقد آور فصلوں وغیرہ) کی موروثی خصوصیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور نئی نئی اقسام متعارف کروائی جاتی ہیں، کوئی زیادہ پیداوار دیتی ہے اور کوئی بیماریوں اور خشک سالی کے خلاف قوتِ مدافعت رکھتی ہے۔ اس میں بھی پی ایچ ڈی تک تعلیم دی جاتی ہے۔
6۔ایگری کلچرل اکنامکس: اس شعبے میں زراعت کے مسائل، معاشی مسائل، ان کو سمجھنے اور حل کرنے کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی قرضہ جات کے حصول، فراہمی، استعمال اور زراعت کے منصوبے اورمعاشی جائزے اور پالیسی وغیرہ زرعی اقتصادی ماہر ہی بناتا ہے۔ اس میں چار شعبہ جات ہیں جن میں پی ایچ ڈی تک تعلیم دی جاتی ہے۔ ۱۔ایگری کلچرل اکنامکس ۲۔ ایگری کلچرل مارکیٹنگ ۳۔کوآپریشن اینڈ کریڈٹ ۴۔فارم مینجمنٹ۔
7۔ایگری ایکسٹینشن: اس شعبے میں زرعی میدان میں ہونے والی تحقیق کو کاشت کاروں تک پہنچانے کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ تاکہ وہ جدید علوم کو اپنا کر زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرسکیں۔ اس شعبے میں ایم ایس سی (آنرز) تکتعلیم دی جاتی ہے۔
8۔ایگری کلچرل انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی: اس میں انجینئرنگ کی بنیادی تعلیم ،جدید ترین زرعی آلات کی دیکھ بھال اور ان کے استعمال کے متعلق پڑھانے کے ساتھ ساتھ آب پاشی کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے اور زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانے کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ اس میں (i)شعبہ بنیادی انجینئرنگ (ii)شعبہ زرعی مشینری اور (iii)شعبہ آب پاشی و نکاسی ہے جس میں ایم ایس سی (آنرز) تک تعلیم دی جاتی ہے۔
9۔فائبر ٹیکنالوجی: اس شعبے میں اون، کپاس، مصنوعی ریشوں کی خصوصیات، ریشے دار پودے اور ان کی کوالٹی کے متعلق ایم ایس سی (آنرز) تک تعلیم دی جاتی ہے۔
10۔فوڈ ٹیکنالوجی: اس شعبے میں سبزیوں اور پھلوں کو محفوظ کرنے، پھلوں کی مصنوعات (شربت، اسکوائش، اچار، چٹنی، جام جیلی) ، دودھ اور دودھ کی مصنوعات، گوشت کو محفوظ کرنے اور خوراک سے متعلق دیگر امور کے بارے میں پی ایچ ڈی تک تعلیم دی جاتی ہے۔
جانوروں کی دیکھ بھال کے ذیلی شعبے
جانوروں کی دیکھ بھال سے متعلق شعبے درج ذیل ہیں۔ ان تمام شعبوں میں بی ایس سی (آنرز) سے پی ایچ ڈی تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔
1۔اینمل بریڈنگ اینڈ جینیٹکس: اس شعبے میں جانوروں کی نسل کشی، جانوروں کی وراثت اور وراثتی بیماریوں کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کی بدولت اعلیٰ نسل کے جانور پیدا کیے جاتے ہیں۔
2۔پولٹری ہسبنڈری: اس شعبے میں فارم پر رکھے جانے والے پرندوں اور مرغیوں سے کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے، سائنسی بنیادوں پر ان کی دیکھ بھال اور انھیں بیماریوں سے محفوظ رکھنے اور انڈوں سے بچے نکالنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔
3۔لائیو اسٹاک مینجمنٹ:اس شعبہ میں ہر قسم کے فارم پر رکھے جانے والے جانوروں کی دیکھ بھال اور ان سے حاصل کردہ اشیا کا صحیح طور پر انتظام شامل ہے۔
4۔اینمل نیوٹریشن:/ اس کا مقصد تمام جانوروں کے لیے ایسی غذا تجویز کرنا ہے جو جانوروں کے جسم کی تمام ضروریات کو پورا کرے۔ اس میں وٹامنز، معدنیات، کاربوہائیڈریٹس، فیٹس کے میٹا بولزم کی تعلیم دی جاتی ہے۔
5۔ویٹرنری اناٹومی: اس شعبے میں خلیے سے لے کر پوری جسامت تک تمام جانوروں کے اندرونی اور بیرونی ساخت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
6۔فزیالوجی اور فارما کالوجی: جانوروں کے جسم کے مختلف اعضا کے افعال، ادویات کی کمپوزیشن، دوائی کی مقدار اور طریقہ ،اثر، ذریعہ دوائی کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔
7۔پیرا سائٹالوجی: تمام جانوروں میں پائے جانے والے اندرونی اور بیرونی طفیلیات (پیرا سائٹس) ان کا جسم میں داخل ہونے کا طریقہ، دورِ زندگی، علاج اور جسم پر اثر کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
8۔مائیکرو بیالوجی: جراثیم کی کیمیائی اور طبی خصوصیات، جراثیم کی ساخت، جسم میں داخل ہونے کا طریقہ، دورِ زندگی، مکمل تدارک، دودھ، پانی اور خوراک سے پھیلنے والی بیماریوں کے تدارک کے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔ اس میں (۱) بیکٹریا لوجی (۲) وائرولوجی(۳)مائیکالوجی(۴) ٹشو کلچر شامل ہیں۔
9۔ویٹرنری پیتھالوجی : احداث مرض (پیتھالوجی) کا مکمل علم اور کیمیائی و طبعی اجزا سے پیدا ہونے والے اثرات کا تفصیل سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔
10۔کلینیکل میڈیسن اینڈ سرجری: مختلف جانوروں کی بیماریوں کا علاج معالجہ، ان کا تدارک اور آپریشن کے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔
11۔ جانوروں کی نسل کشی: اس شعبے میں جانوروں کی نسل کشی کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ نظامِ تولید کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔
پودوں کی افزائش و آرائش کے ذیلی شعبے
1۔ ہارٹی کلچر: زراعت کا وہ شعبہ جس میں آرائشی پھولوں، پودوں، درختوں، تمام سبزیوں، پھلوں، کھمبی (مش روم) ، لینڈ اسکیپ انجینئرنگ، ٹشو کلچر (ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی طرح ٹیسٹ ٹیوب پودے پیدا کرنا) کی پی ایچ ڈی تک تعلیم دی جاتی ہے۔ ہر ایک کے لیے علیحدہ اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔
2۔کراپ فزیالوجی: یہ ایک جدید علم ہے۔ اس میں پودوں کے مختلف حصوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم کیا جاتا ہے کہ کون سا کریکٹر کس کروموسوم پر عمل کرتا ہے اس میں ایم ایس سی (آنرز) تک تعلیم دی جاتی ہے۔
عملی زندگی میں کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرنے والوں کو کھلے آسمان تلے مصروف رہنا ہوتا ہے کاشت کاروں کو مشورے دینا اور زراعت سے متعلق ان کے مسائل کے حل تجویز کرنا، فصلوں کی بیماریوں کی تشخیص کرنا، نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کا سدباب تجویز کرنا، آب پاشی کے معاملوں کی دیکھ بھال،زمین کی زرخیزی بڑھانے کے اقدامات، سیم اور تھور سے متاثر زمین کو کار آمد بنانے کے اقدامات، زرعی آلات اور مشینوں کی دیکھ بھال ، پیداوار کی کٹائی اور اسے ذخیرہ کرنے اور بازار تک پہنچانے کے اقدامات کی نگرانی۔ یہ تمام امور زراعت کے پیشے سے متعلق ہیں اور محنت و توجہ کے طالب ہیں۔
اینمل ہسبنڈری کے شعبے میں کام کرنے والوں کو مویشیوں کی افزائش کے فارم، ڈیری فارم اور چراگاہوں پر کام کرنا ہوتا ہے، یہ لوگ مویشیوں کے اسپتالوں اور دواخانوں میں بہ طور ڈاکٹر اور سرجن کام کرتے ہیں، چڑیا گھروں اور سفاری پارکوں میں جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، سرکس کے ساتھ چلتے ہیں اور اس کے جانوروں کی دیکھ بھال کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
جنگلات کے شعبے میں کام کرنے والوں کو گھروں سے دور جنگلات میں رہنا ہوتا ہے جہاں ان کے ذمے شجر کاری، درختوں کی پرورش ،ان کی دیکھ بھال اور حفاظت اور درختوں کی کٹائی کے انتظامات ہوتے ہیں۔
ہارٹی کلچر کے شعبے میں کام کرنے والوں کو نرسریوں، باغات، پارکوں، پھلوں کے باغات اور سبزیوں کے فارموں میں کام کرنا ہوتا ہے۔
ان تمام شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کے حامل افراد انتظامی اور تحقیقی و تعلیمی اداروں میں کام کرتے ہیں۔
نیچے کی سطح سے اوپر کی سطح تک، تمام شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے عملی مہارت نہایت ضروری ہوتی ہے۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو عار نہ سمجھنے والے اور بلاتکلف ہر وقت ہر کام کے لیے تیار رہنے والے کامیاب و بامراد ہوتے ہیں۔ بیش تر شعبوں میں ہمہ وقت کھلے ماحول میں، خوش گوار اور ناخوش گوار موسموں میں، اور دن رات کے موزوں اور ناموزوں اوقات میں کام کرنا پڑتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس شعبے سے وابستہ افراد کی صحت اچھی ہو۔
مواقع
زراعت اور اس کے مختلف شعبہ جات کی اہمیت سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں 80 فی صد سے زائد لوگ۔۔۔بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت سے منسلک ہیں۔ زراعت کے خام مال پر انحصار کرنے والی ان گنت صنعتوں کا قیام عمل میں آچکا ہے اور اس کے لیے تربیت یافتہ زرعی سائنس دانوں کی از حد ضرورت ہے۔ ابھی تک کوئی ایسا زرعی سائنس دان نہیں جسے ملازمت کے لیے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ انتظار کرنا پڑا ہو کیوں کہ سرکاری و نیم سرکاری اور نجی اداروں میں ان کے لیے ملازمت کے بے شمار مواقع ہیں۔ دنیا میں زراعت کے فروغ پر تحقیق کے لیے اقوام کا ایک ادارہ ’’فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن‘‘ بھی کام کر رہا ہے اور پاکستان میں اس تنظیم کے دفاتر میں بھی مقامی سائنس دانوں کی کھپت ہوتی ہے۔

بی ایس سی ’’آنرز‘‘کے چار سالہ نصاب کی تکمیل پر سند یافتہ امیدواروں کو سرکاری اور نیم سرکاری زرعی اداروں میں گریڈ ۷۱ پر ملازمت کی پیش کش کی جاتی ہے۔
فیصل آباد، ٹنڈو جام اور پشاور کی زرعی جامعات اور دیگر زرعی کالجوں میں ہر سال اوسطاً دو ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ بی ایس سی (آنرز) میں اوسطاً ۰۰۴۱ اور ایم ایس سی (آنرز) میں اوسطاً700امیدوار زیر تعلیم ہوتے ہیں جب کہ ہر سال پی ایچ ڈی کرنے والوں کی اوسط تعداد دس ہے۔
زرعی سائنس میں بی ایس سی(آنرز) یا اعلیٰ تعلیم کے بعد سند یافتہ نوجوانوں کو مندرجہ ذیل شعبوں میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔
زراعت، جنگلات، اصلاح اراضی، زمینی جائزہ، تحفظِ نباتات ، امدادِ باہمی، بازار کاری، ذخیرہ گاہیں، زرعی خدمات، واپڈا سیڈ کارپوریشن، واٹر مینجمنٹ پروجیکٹ، زرعی ترقیاتی بینک، زرعی تحقیقاتی کونسل، پی سی ایس آئی آر، سینٹرل کاٹن کمیٹی، ملٹری فوڈ لیبارٹریز، سی ڈی اے، سیم و تھور سے نجات کے پروگرام، زرعی ترقیاتی بورڈ برائے امدادِ باہمی، پودوں کا قرنطانیہ، انسداد ملیریا، کیمیائی ٹیکنالوجی کا ادارہ محکمہ سماجی بہبود، دیہی ترقی کا منصوبہ، آبادی منصوبہ بندی کا محکمہ، دولتِ مشترکہ کا ادارہ برائے جراثیم سے نجات، زراعت سے متعلق صنعتیں، بینک اور مالیاتی ادارے کالج، جامعات اور مدارس، مویشیوں کی افزائش کے مراکز ڈیری فارمز، ذاتی کاروبار، زرعی ترقیاتی کارپوریشن، مرغیوں اور مویشیوں کا چارہ ،غذا بنانے کی صنعت، پودوں اور جانوروں کے علاج کی دوائیں بنانے والے ادارے۔
پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے داخلے کی اہلیت
زراعت، باغبانی، علمِ حیوانات اور علمِ جنگلات کے تمام شعبوں میں پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی بھی مخصوص تعلیمی ادارے میں داخلے کی بنیادی اہلیت پری میڈیکل میں بارہویں جماعت کامیابی ہے۔
بارہویں جماعت درجہ اوّل اور درجہ دوم میں کامیاب امیدوار داخلے کے لیے اہل ہوتے ہیں۔ مختلف یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں کھلے مقابلے اور کوٹے کی بنیاد پر نشستیں مخصوص ہوتی ہیں۔ کوٹے میں صوبائی کوٹہ، قبائلی علاقوں کا کوٹہ، مسلح افواج کے اراکین کے بچوں کا کوٹہ ،متعلقہ ادارے کے اساتذہ کے بچوں کا کوٹہ اور کھیل اور سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کی بنیاد پر نشستوں کا کوٹہ مخصوص ہوتا ہے۔
پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے ادارے
زراعت کے مختلف شعبوں میں تعلیم و تربیت کے لیے پاکستان میں درجِ ذیل ادارے کام کر رہے ہیں۔
1۔زرعی یونی ورسٹی، فیصل آباد: یہ پاکستان کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جہاں زراعت، اینمل ہسبنڈری،ہارٹی کلچرل اور فارسٹری کے ان تمام شعبوں میں تعلیم و تربیت دی جاتی ہے جن کا تذکرہ اس مضمون میں کیا گیا ہے۔
2۔سندھ زرعی یونی ورسٹی، ٹنڈو جام
3۔سرحد یونی ورسٹی، پشاور
4۔بارانی زرعی کالج، راول پنڈی
5۔کلیہ زراعت، گومل یونیورسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان
6۔یونی ورسٹی کالج برائے زراعت راولاکوٹ، آزاد کشمیر
7۔زرعی کالج، کوئٹہ
8۔کالج آف ویٹرنری سائنسز، لاہور
9۔فارسٹ انٹی ٹیوٹ ، پشاور
10۔زرعی کالج، ملتان
نصاب اور تربیت کا پروگرام
بی ایس سی (آنرز) چار سالہ دورانیہ کی تعلیم ہے۔
زرعی یونی ورسٹی فیصل آباد، بارانی کالج راول پنڈی، کالج آف ویٹرنری سائنسز لاہور میں سمسٹر سسٹم ہے۔ ڈگری پروگرام8 سمسٹر (چار سال) پر مشتمل ہے۔ ایک سمسٹر 18ہفتوں کا ہوتا ہے۔ سال میں دو سمسٹر ایک خزاں اور ایک بہار میں ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرمیوں کا سمسٹر بھی ہوتا ہے جو 8سے10 ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے تاکہ طلبہ و طالبات اپنے فیل شدہ مضمون یا ڈی گریڈ اس دورانیے میں بہتر بناسکیں۔ اگر کوئی طالب علم کسی وجہ سے بی ایس سی (آنرز) کی ڈگری متعلقہ 8 سمسٹر میں حاصل کرسکتا تو اسے مزید چار سمسٹر کی اجازت ہوتی ہے۔ بی ایس سی (آنرز) کے لیے کم سے کم کریڈٹ آورز 160ہیں۔ ایک مہینے میں 23سے 27تک کریڈٹ آورز پڑھنا ہوتے ہیں۔ ایک کریڈٹ آور تقریباً 50منٹ کا ہوتا ہے۔ ایم ایس سی (آنرز) کے لیے کم سے کم 45کریڈٹ آورز ہوتے ہیں اور اس کا دورانیہ چار سمسٹر (دو سال) کا ہوتا ہے۔ تعلیم و تدریس کا ذریعہ انگریزی ہے۔75 فی صد حاضری ضروری ہے۔
فیس اور دیگر اخراجات
ہر سمسٹرکی فیس علیحدہ لی جاتی ہے جو تقریباً 565 روپے ہوتی ہے (اس میں امتحان کی فیس، کاشن منی شامل ہے) اگر ہوسٹل میں رہائش اختیار کرنی ہو، تو اس کے لیے داخلے کے وقت داخلہ فیس کے ساتھ ہی تقریباً 400روپے جمع کرنے ہوتے ہیں۔ کھانے وغیرہ کا خرچہ طالب علم کو خود کرنا ہوتا ہے جو کسی صورت میں بھی 900روپیہ ماہوار سے زائد نہیں آتا۔
وظائف و مالی امداد
دوسرے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں کی طرح زراعت کے مختلف شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے لیے مختلف وظائف و مالی امداد کا خاطر خواہ انتظام ہے۔ زراعت میں بھی ذہین طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اول انعام گولڈ میڈل دوم انعام سلور میڈل اور سوم انعام کانسی میڈل دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ محکمہء تعلیم کے وظائف، قرضِ حسنہ (بینکنگ کونسل) ڈسٹرکٹ کونسل وظائف، فوجی فاؤنڈیشن، زکوٰۃ فنڈ اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشنز کے وظائف سے طلبہ و طالبات کی مالی امداد کی جاتی ہے۔ یوں کہنا چاہیے فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے والا کوئی ایسا طالب علم نہیں ہوتا جو کہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے وظیفہ حاصل نہ کرتا ہو۔
کام کی نوعیت اور حالاتِ کار
جیسا کہ مضمون کی ابتدا میں بیان کیا گیا ہے، زراعت اور اس کے متعلقہ پیشوں کو محض روزگار کے طور پر اپنانے والے زیادہ کامیاب نہیں ہوتے۔ ان پیشوں میں وہی لوگ ترقی اور کامیابی حاصل کرتے ہیں جو اپنے پیشے کو طرزِ زندگی کے طور پر اختیار کرلیں۔
زراعت اور اس کے متعلقہ شعبے، ایسے پیشے ہیں جن میں زندہ اشیا سے واسطہ ہوتا ہے وہ فصلیں ہوں یا پھول اور پودے، جانور ہوں یا جنگلات، یہ تمام اشیا جان داروں میں شمار ہوتی ہیں، پھلتی پھولتی ہیں،سانس لیتی ہیں اور غذا استعمال کرتی ہیں، بیمار پڑتی ہیں اور انھیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ باہمی اختلاط سے ان کی نسلیں بڑھتی ہیں اور ان سے متعلق تمام سرگرمیاں وقت ،محنت اور توجہ کی طلب گار ہوتی ہیں۔ ان زندہ اشیا کے ساتھ مشینوں والا رویہ اختیار نہیں کیا جاسکتا کہ مقررہ اوقات میں ان کے ساتھ کام کیا اور پھر دوسری سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ کھیتوں میں فصلوں کی دیکھ بھال کرنا، زمین کا مطالعہ کرنا، تجربہ گاہوں میں بیجوں کی اعلیٰ نسل پیدا کرنے کے لیے تحقیق میں مصروف رہنا، دو پودوں کے اختلاط سے نئی نسل دریافت کرنا، جانوروں اور مویشیوں کی دیکھ بھال اور ان سے متعلق امور کے انتظامات ، بیمار اور زخمی پودوں اور مویشیوں کا علاج، زیادہ فی صد بہتر پیداوار دینے والے مویشیوں کی افزائش اور ان کی نسل کشی، پھولوں اور پودوں کی دیکھ بھال، جنگلات کے درختوں کی نگرانی اور پرورش، شجر کاری کے انتظامات اور نوخیز پودوں اور درختوں کی نگہداشت، پھلوں کی بہتر قسم پیدا کرنا۔ یہ تمام کام ذاتی شوق، د لچسپی اور کتابی علم کے علاوہ ان اشیا کے عملی مشاہدے اور مطالعے اور ان اشیاء کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کی بنیاد پر ہی بہ حسن و خوبی انجام پاسکتے ہیں۔
تنخواہیں
زراعت اور اس سے متعلق شعبوں میں بی ایس سی (آنرز) سند کے حامل نوجوانوں کو سرکاری اور نیم سرکاری شعبوں میں گریڈ 17دیا جاتا ہے۔ زرعی ترقیاتی بینک اور دیگر تجارتی بینکوں میں اس قابلیت کے حامل امیدواروں کو گریٹ 16میں موبائیل کریڈٹ آفیسر کے طور پر ملازم رکھا جاتا ہے۔ انھیں موٹر سائیکل اور ایندھن کاا لاؤنس دیا جاتا ہے۔ بی ایس سی (آنرز) کو تین ہزار روپے سے پانچ ہزار روپے تک مشاہرہ دیا جاتا ہے۔
مزید معلومات کے لیے خط لکھیے۔
1۔ شیخ الجامعہ جامعہ زرعیہ، فیصل آباد 2۔شیخ الجامعہ جامعہ زرعیہ ،ٹنڈو جام سندھ
3۔شیخ الجامعہ جامعہ زرعیہ ،پشاور 4۔پرنسپل ،بارانی زرعی کالج مری روڈ راول پنڈی
5۔رئیس کلیہ زرعیہ 6۔پرنسپل زرعی کالج ،کوئٹہ
جامعہ گومل ڈیرہ اسماعیل خان 7۔پرنسپل کالج آف ویٹرنری سائنسز، لاہور
8۔ڈائریکٹر فارسٹ انسٹیٹیوٹ، پشاور 9۔پرنسپل یونی ورسٹی کالج برائے زراعت
راولا کوٹ، آزاد کشمیر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending

Exit mobile version