بلاگ

خوراک کے علاوہ انسان کی ایک اوربنیادی ضرورت

Published

on

ابلاغِ عامہ
خوراک اورجائے پناہ جیسی طبعی ضروریات کے علاوہ انسان کی ایک اوربنیادی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے کچھ کہہ سن سکے، معلومات اورخیالات کاتبادلہ کرسکے یا اصطلاحی طور پر کہیے کہ ابلاغ کا عمل کرسکے۔ ابلاغ کی خواہش بڑی ہی بنیادی ہے اور ہم عصر تہذیب میں تویہ محض خواہش ہی نہیں رہی بلکہ فرد کے شرطِ بقا بن گئی ہے ۔سادہ سے لفظوں میںابلاغ کا عمل اطلاع، خیالات اوررویوں کوایک فرد سے دوسرے فرد تک پہنچانے کا عمل ہے۔ جب اورجہاں دوانسان ہم کلام ہوتے ہیں توابلاغ کا عمل جاری ہوجاتا ہے ۔

ابلاغ کی اس انسانی ضرورت کو بنیادبنا کر معاشرے نے پیغامات کی ترسیل کے لیے طرح طرح کی اوربڑی پیچیدہ مشینیں بناڈالی ہیں اوراطلاعات، خیالات اوررویوں کے دور اورقریب نیزبڑے وسیع اور ہمہ گیر ابلاغ کے لیے بڑا جامع اور بسیط نظامِ ابلاغ وضع کرلیا ہے۔ سائنس کی نئی کامیابیاں ابلاغ کے راستے کی رکاوٹیں دورکررہی ہیں ،فاصلے سمٹ رہے ہیں۔ دریا ، پہاڑ، صحرا، سمندر جیسی سب رکاوٹوں پر عبور پایا جاچکا ہے۔ آواز اور تصویر کی ترسیل زمین کے دور دراز مقامات تک ہی نہیں بلکہ کائنات میں دور دراز ستاروں اور سّیاروں تک ممکن ہوگئی ہے۔ مصنوعی خلائی سیّاروں کے وسیلے سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے لگی ہیں۔ دنیا کے دور دراز مقامات سے بہ یک وقت ایک ہی اخبار چھاپا جانے لگا ہے ۔

یہ وسیع ابلاغی نظام، یہ قیمتی لوازمات او رمشینیں سب بے معنی ہیں اگر ان کے ذریعے پہنچانے کے لیے ہمارے پاس کوئی منظم پیغام ہی نہ ہو، کہنے کو کوئی ڈھنگ کی بات ہی نہ ہو۔ چناں چہ آج کل ابلاغِ عامہ یا عرف ِعام میں صحافت کے مطالعے کے دو پہلو ہیں اوّل ابلاغ کے میکانی وسائل اور ابلاغی نظریات کو سمجھنا دوم یہ کہ ان ذرائع کو لوگوں کو مطلع کرنے، متاثر کرنے، قائل کرنے، خوف زدہ کرنے، پرجوشکرنے یا انھیں تفریح بہم پہنچانے کے لیے کس طرح برتا جائے۔ ان کے لیے کیسے لکھا جائے ،ان کے لیے پیغامات اور مختلف مسوّدات کیسے مرتّب کیے جائیں اس تکنیکی علم کا حاصل کرنا اور اس کے ذریعے ابلاغِ عامہ کے مختلف اداروں میں خدمات انجام دینا ایک دوسرا پہلو ہے جو ایک مستقل پیشہ اور میدانِ عمل ہے پھر یہ کہ ابلاغ کا عمل صرف ابلاغ کے معروف ذرائع تک ہی محدود نہیں معاشرے میں عوام کی سطح پر روبرو ابلاغ ، اداروں کے درمیان ابلاغ، اداروں اور عامتہ الناس کے درمیان ابلاغ کی سرگرمیاں، ان سرگرمیوں میں مصروف لوگ معروف طور پر صحافی نہیں ہوتے مگر ہوتے وہ ابلاغ کا ر ہی ہیں اورابلاغ کی جدید اصطلاح کے وسیع تر مفہوم میں ان کی سرگرمیوں کے میدان بھی آتے ہیں۔ اس اعتبار سے ابلاغ کا میدان بڑا وسیع اور نوجوانوں کے لیے پیشے کے انتخاب کے ضمن میں ہمہ گیر اور غیر معمولی امکانات والا میدانِ عمل ہے۔

پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت اور اس کے ادارے

ابلاغ کار ( عرف عام میں صحافی) کیسے بنتا ہے؟ ایک مکتبہءفکر کا کہنا ہے کہ اعلی اخلاقی اقدار کسی فرد کو اعلی پائے کا صحافی بناتی ہیں دوسرے مکتبہءفکر کا کہنا ہے کہ اعلی تعلیمی معیار بڑا صحافی پیدا کرتا ہے۔ کچھ یقین سے کہتے ہیں کہ مسابقت پسندی اور صبر آزمائی والی روح بڑے صحافی پیدا کرتی ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ شعور ، اسلوب، ڈراما پسندی، عوام کے مقدمے کو بے جگری سے لڑنے اور سچائیوں کے بے ٹوک انکشاف کے لیے مہم جوئی کے جنوں سے صحافی بڑے صحافی بنتے ہیں۔ یہ سب مجموعی طور پر اپنی جگہ درست ہے اوران ہی بنیادوں پر عام پڑھے لکھے لوگ اس پیشے میں آکر کچھ برسوں کی عملی مشق اور تجربے سے بڑے صحافی بنتے رہے ہیں۔ مگر جیسے جیسے اس پیشے میں فنی گہرائی آرہی ہے، تخصیص پیدا ہورہی ہے اور تکنیک کا استعمال بڑھ رہا ہے ، ویسے ویسے باقاعدہ پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کا احساس بھی عالم گیر طور پر روز افزوں ہے۔ امریکا میں جوزف پلٹزر پہلا شخص تھا جس نے کھل کر کہا کہ صحافی بطنِ مادر سے نہیں، درس گاہوں سے(یعنی مناسب تعلیم اور تربیت کے ذریعے) پیدا ہوتے ہیں۔ چناں چہ امریکا میں صحافت کی فنی تعلیم و تربیت کی روایت اب تقریباً سو برس پرانی ہے ۔

برصغیر میں صحافت کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں جامعات کے کردار کی ادائیگی کی ضرورت کو اب سے تقریباً آدھی صدی پہلے ہی تسلیم کرلیا گیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل 1941ءمیں جامعہ پنجاب میں شعبہ صحافت قائم ہوا۔ آزادی کے بعد ہمارے یہاں جب صحافت نے باقاعدہ ایک صنعت کی شکل میں ڈھلنا شروع کیا تو نئے کارکنوں کی پیشہ ورانہ تربیت کی ضرورت کو بھی نسبتاً زیادہ اہمیت کے ساتھ محسوس کیا گیا۔ 1955ءمیں کراچی اور حیدر آباد کی جامعات میں تدریسی شعبے قائم ہوئے ۔اس زمانےمیںپنجاب، کراچی اور سندھ کی تینوں جامعات میں ایم اے نہیں بلکہ محض ڈپلوما کورسز کی کلاسیں ہوتی تھیں۔ 1959ءمیں پاکستان پریس کمیشن نے اور 1960ءمیں قومی تعلیمی کمیشن نے مختلف جامعات میں صحافت کے تدریسی شعبے قائم کرنے اور پہلے سے موجود شعبوں کو ترقی دینے کی سفارشات کیں۔ جامعہ سندھ میں صحافت کی تدریس کا تجربہ۔ 1958ءمیں ہی ناکام ہوچکا تھا اور شعبہ بند کردیا گیا تھا تاہم ان کمیشنوں کی سفارشات کی روشنی میں پنجاب اور کراچی کی جامعات میں بالترتیب 1960ءاور 1964ءسے ایم اے کی کلاسوں کا اجرا ہوا۔ سقوط ِمشرقی پاکستان کے بعد جامعہ سندھ میں صحافت کا شعبہ از سرِ نو قائم ہوا۔ پھر صوبہ سرحد کی جامعہ گومل اور جامعہ پشاور میں شعبے قائم ہوئے۔ پچھلے دو تین برسوں میں جامعہ بلوچستان اورجامعہ اسلامیہ بہاول پور میں بھی صحافت کے شعبے قائم ہوچکے ہیں ۔

جامعات کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن نے اپنی مخصوص ضرورتوں کے لیے 1984ءمیں اسلام آباد میں اپنا الگ تربیتی ادارہ ”پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن اکیڈیمی“ بھی قائم کیا ہے جس میں اداکاری، مسودہ نگاری، پیش کش کاری، کیمرہ کاری اور صورت آرائی کی فنی تربیت دی جاتی ہے یہ وہ شعبے ہیں جن کی تربیت کے لیے جامعاتی سطح کے تدریسی پروگراموںمیں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ریڈیو پاکستان نے بھی ایسی ہی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اپنا ایک الگ تربیتی ادارہ قائم کیا ہے۔ 1987ءمیں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرزایڈیٹرز نے تحقیقی اور تخصیصی نوعیت کے تربیتی مقاصد کے لیے نجی شعبے میں پہلا تربیتی ادارہ پاکستان پریس انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے۔

تعلّقات عامہ اور اشتہار سازی

تعّلقات عامہ کا پیشہ کیا ہے ؟

تعّلقات عامہ کو فن سمجھیے، سائنس جانیے یا کاروبار تسلیم کیجیے اس کی درجہ بندی خواہ کیسے ہی کیجیے ایک بات طے ہے کہ اس میدانِ عمل کا بنیادی کام خادم و مخدوم یعنی خدمت کرنے والوں اور خدمت کرانے والوں کے درمیان باہمی مفاہمت کا پل تعمیر کرنا ہے تاکہ دونوں طبقات کے مابین خوش گوارتعلق سے کاروبارِ حیات ہمواری کے ساتھ چلتا رہے۔ خادم و مخدوم کی ان دو اصطلاحات کی ذیل میں حکومتیں، نیم سرکاری ادارے، سیاسی جماعتیں، معاشرتی فلاح کا کام کرنے والی تنظیمیں اور ادارے، درس گاہیں ، مراکز صحت، تجارتی و صنعتی ادارے اور ان کی خدمت و مصنوعات سے مستفید ہونے والے سب شامل ہیں۔ خدمات و مصنوعات مہیا کرنے والے، خدّام کے طبقے میں آتے ہیں اور ان خدمات و مصنوعات سے فائدہ اٹھانے والے عامتہ النّاس، مخدوم کے طبقے میں آتے ہیں۔ تمام تنظیموں، اداروںاور محکموں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ عوام سے ان کے تعّلقات خوش گوار رہیں بہ الفاظِ دیگر رائے عامہ ان کے حق میں ہموار رہے۔ کیوں کہ رائے عامہ کی ہمواری کے بغیر کسی ادارے، محکمے یا تنظیم کا ہمواری سے چلنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی غرض سے مفاہمت کے پل کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہ ضرورت پوری کرنا اب ایک فن، ایک پیشہ اور ایک خصوصی مہارت بن چکی ہے، اسی فن اور پیشے کا میدانِ عمل، تعلقات عامہ کا شعبہ کہلاتا ہے۔

تعلقات عامہ میں کیا کرنا ہوتا ہے؟ کرنا یہ ہوتا ہے کہ محکموں، اداروں یا تنظیموں کی طرف سے عوام کویہ بتایا جائے کہ وہ انھیں اپنی کیا خدمات، اشیا اور مصنوعات پیش کرتے ہیں۔ ان خدمات، اشیا، مصنوعات کی نوعیت، معیار اورافادیت کیا ہے وغیرہ وغیرہ ….دوسری طرف خود خدمات، اشیا اورمصنوعات پیش کرنے والے ادارے اورتنظیموں کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ جو خدمات و مصنوعات اوراشیاعوام کے سامنے پیش کررہے ہیں ان کے بارے میں صارفین کا ردِ عمل کیا ہے۔ اس طرح دو طرفہ ابلاغ سے مفاہمت کا وہ پل تعمیر ہوتا ہے جس سے اداروں کو اپنی خدمات و مصنوعات کو رائے عامہ کی پسند کے سانچوں میں ڈھالنے کا موقع ملتا ہے اور ان کی کار گزاری میں بہتری اور پیش رفت آتی ہے۔

اداروں، تنظیموں اور محکموں….اوررائے عامہ میں مفاہمت کی اس ضرورت اور اس کی تکمیل کے لیے پیشہ ورانہ مہارت کو اب روز افزوں طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے اور ہرتنظیم ،ادارہ یا محکمہ اپنی اپنی بساط کے مطابق تعلقاتِ عامہ کے لیے درجنوں افراد پر مشتمل ایک وسیع شعبے سے لے کر ایک فرد تک عملہ ضرور رکھتا ہے، جسے تعلقاتِ عامہ کی ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے ۔

تعلقاتِ عامہ کے شعبے میں کارگزار لوگوں کا بنیادی کام ابلاغ ہی ہے۔ ابلاغ کے اس عمل کے لیے تعلقاتِ عامہ کا کارکن ویسے ہی ذرائع اور وسیلے اختیار کرتا ہے جو ابلاغ کے دوسرے میدانوں میں استعمال ہوتے ہیں مثلاً مطبوعہ مواد مہیا کرنے کے لیے وہ تصویروں سے مزین خبری اعلامیے جاری کرسکتا ہے، اپنے ادارے کی طرف معلوماتی کتابچے، تعارف نامے، ہینڈبل، فولڈر، کیٹلاگ، ڈائریاں، کیلنڈر اور مطبوعہ خبرنامے یا خانگی رسائل و جرائد اور رپورتاژ وغیرہ تیار کرتا ہے۔ سمعی مواد کے طور پر ریڈیو پروگرام ، تقریروں، مذاکروں، جلسوںاور مباحثوں کا اہتمام کرتا ہے۔ بصری مواد مہیا کرنے کے لیے مظاہروں ، نمائش ، فلموں، سلائیڈوں، دستاویزی فلموں، ثقافتی تقریبوں، پریڈوں وغیرہ کے انعقاد کاانتظام کرتا ہے۔ غرض ابلاغ کا ہر حربہ استعمال میں لاتا ہے۔ تعلقاتِ عامہ اورتشہیر مترادف اصطلاحات نہیں ہے۔ تشہیر ،تعلقات عامہ کا ایک وسیلہ ہوسکتی ہے، بجائے خود اسے تعلقات عامہ کا عمل نہیں سمجھنا چاہیے ۔

پیشے میںداخلے کی اہلیت اور پیشہ ورانہ تربیت کے ادارے

چوں کہ تعّلقاتِ عامہ کے شعبے کا بنیادی کام ابلاغ ہے، اوراس شعبے کے کارکن بھی خبری مواد کی تحریر، رائے عامہ کی تشکیل اور اخبار و رسائل کے اجرا جیسے کام کرتے ہیں، اس لیے اس پیشے میں تربیت یافتہ صحافی عام خواندہ لوگوںکے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں اور بالعموم اس پیشے میں ذرائع ابلاغ میں کارگزار رہنے والے لوگ ہی کام کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی ان سب جامعات میں جہاںابلاغِ عامہ یا صحافت کا شعبہ موجود ہے وہاںابلاغِ عامہ کے نصاب کے جزو کے طور پر تعلقاتِ عامہ کی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ چناں چہ سرکاری محکموں میں تعلقاتِ عامہ کے افسروں اورکارکنوں کی تقرری کے لیے ابلاغِ عامہ کی ڈگری کی شرط اب عمومی طور پر اُن اسامیوں کے اشتہارات میں نظر آنے لگی ہے۔ نجی شعبے کے اداروں اور تنظیموں میں افسران تعلقاتِ عامہ کی اسامیوں پرترجیحی طور پر تجربہ کار صحافیوںہی کا تقرر عمل میں آتا ہے ۔

علمِ کتب خانہ و اطلاعات

کتاب اور کتب خانے اس دنیا کی تہذیب و ترقی کا ایک بنیادی جزو ہیں۔ دنیا کی یہ رونق و رنگینی، خلا کی پنہائیوں اور سمندر کی گہرائیوں میں انسان کا سفر، کائنات کے پوشیدہ اسرار کی جستجو اور خود انسان کی اپنی ذات و صفات سے آگہی….یہ سب کچھ اس کی بہ دولت ہے کہ جو بھی جو کچھ دریافت کرتا رہا، وہ اسے آنے والی نسل کے لیے کتابوں میں محفوظ کرتا رہا اور بعد کے لوگوں نے پچھلے لوگوں کے تجربے، مشاہدے اور علم کو سمجھ کر جستجو کے سفرکو آگے بڑھایا۔ کتاب اور کتب خانے نہ ہوتے تو ہم سقراط کے مکالمات کی دانش و بصیرت سے فیض یاب نہ ہوپاتے، نیوٹن کے قوانین یادداشتوں سے محو ہوجاتے، علم کا سلسلہ تیز رفتاری سے آگے نہ بڑھتا اور دنیا نہ جانے کتنی پس ماندہ ہوتی۔

کتابوں کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے، لوگوں نے انھیں محفوظ کرنے اور ان سے بھرپور طریقے سے استفادے کے لیے کتب خانوں کو رواج دیا۔ کتب خانے علم کی روشنی بنے تو ان کی افادیت اور فعالیت کو زیادہ موءثر بنانے کے لیے کتب خانوں کے نظام کو باقاعدہ علم کی شکل دی گئی اور آج اس علم کی بہ دولت کتب خانے نہ صرف کتابوں کی ذخیرہ گاہ بن گئے ہیں بلکہ اطلاعات کی فراہمی کے ایسے مراکز کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں جہاں تحقیق و جستجو میں مصروف لوگوں کو فوری طور پر ان کی مطلوبہ معلومات دستیاب ہوجاتی ہیں۔

سماجی و فطری علوم کی ترقی کے ساتھ کتب خانوں کے علم نے بھی ترقی کی ہے، اب کتب خانے کا مطلب صرف کتابوں کی ذخیرہ گاہ نہیں رہا، بلکہ کتب خانوں کے جدید خودکار نظام میں مختلف آلات اوراشیا استعمال ہونے لگی ہیں۔ ان آلات و اشیا میں فوٹو کاپی مشین، الیکٹرونک ٹائپ رائٹر ، بک لفٹ، سمعی و بصری آلات اور کمپیوٹر شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کتب خانوں میں کتابوں کے ساتھ ساتھ اطلاعات ذخیرہ کرنے والی دیگر اشیا بھی دستیاب ہونے لگی ہیں۔ جس میں مائکرو فلم، مائکرو فش، مائکرو کارڈ ، آڈیووڈیو کیسٹ اور ڈسک شامل ہیں ۔اب وہ ہر چیز جس میں کوئی ”اطلاع “محفوظ ہو علم کتب خانہ و اطلاعات کی اصطلاح میں ”کتاب“ کے زمرے میں آتی ہے ۔ کتب خانے کے مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ ”مطلوبہ مواد بروقت طلب کرنے والے کو فراہم کیا جائے“۔ اچھے کتب خانے کا انحصار زیادہ کتب سے نہیں بلکہ بہتر، بروقت اور زیادہ سے زیادہ خدمات پر ہوتا ہے۔ ایک ایسا کتب خانہ جہاں کتب کابہت بڑا ذخیرہ ہو لیکن وہاں پڑھنے والوں کو تسلی بخش خدمات حاصل نہ ہوں….اچھا کتب خانہ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے برعکس کم کتب پر مشتمل کتب خانے کو اس کی خدمات کی وجہ سے اچھا کتب خانہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending

Exit mobile version