انجئرنگ
ماحولیاتی انجینئرنگ
:ماحولیاتی انجینئرنگ
جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی پیش رفت نے جہاں انسانیت کو ترقی کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے وہیں سیکولر اور آزاد طرزِ زندگی نے انسانیت کو وہ گہن لگا دیا ہے جس کی واضح مثال کائنات کے ماحول کی تباہی ہے۔ سائنس دانوں اور ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ آئندہ صدیوں کا سب سے بڑا اورگمبھیر مسئلہ قوائد و ضوابط سے آزاد صنعتی ترقی ہے جس کے نتیجے میں کرۂ ارض پر نوع انسانی کی بقا اور زندگی داؤ پر لگ چکی ہے۔ زیادہ سے زیادہ صنعتی پیداوار کی دوڑ میں کارخانوں اور فیکٹریوں سے روزانہ بہت بڑی مقدار میں صنعتی فضلہ جات اور زہریلے مادے خشکی، پانی اور فضا میں شامل ہو رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہمارے پاس آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے کچھ زیادہ مہلت نہیں ہے۔ اگر موء ثر اقدAامات نہ کیے گئے اور آلودگی پر قابو نہ پایا جاسکا تو آئندہ دو صدیوں میں کرۂ ارض پر ہر قسم کی انسانی، حیوانی اور نباتی زندگی نیست و نابود ہوسکتی ہے۔
کیوں کہ آلودگی کے مسئلے کا سامناسب سے پہلے ترقی یافتہ ممالک کو کرنا پڑا اس لیے انھوں نے ہی سب سے پہلے اس پر قابو پانے پر توجہ دی۔ لیکن تیسری دنیا کے ملکوں میں آلودگی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور ہنوز زبانی جمع خرچ ہے زیادہ کام ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان میں بھی صنعتی آلودگی کا مسئلہ زیرِ غور ہے۔ آلودگی کے مسائل پر توجہ، غور و خوض اور تحقیق کے لیے ملک کے چاروں صوبوں میں ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسیوں کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ آلودگی پر کنٹرول کے لیے ایک آرڈیننس بھی جاری ہوچکا ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آلودگی کی افزائش کو روکنے کے لیے مزید قانون سازی کا عمل بھی جاری ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت تربیت یافتہ کارکنوں اور سائنس دانوں کی تیاری کو دی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے چاروں صوبوں میں مختلف یونی ورسٹیوں اور اداروں کو تربیت اور تحقیق کی ذمہ داری تفویض کر دی گئی ہے۔ چناں چہ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں ماحولی تحفظات کو اب جو ترجیح اور اہمیت دی جا رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں کیریئر پلاننگ کے نقطہء نظر سے ماحولیات کا شعبہ بے حد اہمیت اختیار کرجائے گا۔
:کام کی نوعیت
ماحولیات کا مضمون ماحولی تبدیلیوں، ان کے انسانی صحت پر اثرات اور ماحولی تحفظات کے طریقوں سے بحث کرتا ہے۔ چناں چہ ماحولیات کے طالب علم کو آلودگی اور اس کے محرکات کا وسیع مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ ماحولیات کا طالب علم زمین، فضا اور پانی میں آلودگی کا علیحدہ علیحدہ مطالعہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی اسے اطلاقی کیمیا اور خورد حیاتیات کا علم بھی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کا اصل کام آلودگی کا مشاہدہ، اس کی جانچ پڑتال اور آلودگی پر کنٹرول ہے۔ اس کا زیادہ تر کام آلات کی مدد سے آلودہ ذرّات کے نمونے جمع کرنا، ان کا تجزیہ کرنا، ان کے اثرات کا تعین کرنا اور آلودگی کے تدارک کے لیے اقدامات تجویز کرنا ہے۔ اس پورے عمل میں میدانی تحقیق اور مساحت کے علاوہوسیعتجربہ گاہی تحقیقاتشامل ہیں۔
:پاکستان میں ماحولیات کی تعلیم
پاکستان کی چار جامعات میں ماحولیات کی تعلیم ہوتی ہے۔ ان میں این ای ڈی انجینئرنگ یونی ورسٹی، مہران انجینئرنگ یونی ورسٹی، لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی اور کراچی یونی ورسٹی شامل ہیں۔
این ای ڈی انجینئرنگ یونی ورسٹی میں اگرچہ ماحولیات کا مضمون سول انجینئرنگ کے بیچلرز ڈگری پروگرام کا حصہ ہے لیکن پوسٹ گریجویٹ تعلیم این ای ڈی کے ’’انسٹی ٹیوٹ آف انوائر نمینٹل انجینئرنگ اینڈ ریسرچ‘‘ میں ہوتی ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ 1986ء میں قائم کیا گیا۔
ایم ایس سی (ماحولیاتی انجینئرنگ) کی تدریس شام اور صبح دونوں اوقات میں ہوتی ہے۔ شام کا تعلیمی پروگرام تین سال اور دن کا تعلیمی پروگرام دو سال پر محیط ہے۔ ایک تعلیمی سال دو سمسٹرز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک سمسٹر کی فیس ڈیڑھ ہزار روپے ہے۔ امتحانات کی فیس اس کے علاوہ ہے۔
لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں ماحولیات کی تعلیم انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں دی جاتی ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ1972ء میں قائم ہوا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ کے تحت ماسٹرز ڈگری، پی ایچ ڈی اور شارٹ کورسز میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں ماحولیات کے مضمون میں جو ڈگری دی جاتی ہے وہ ’’ایم ایس سی ان پبلک ہیلتھ انجینئرنگ‘‘ کہلاتی ہے۔
مہران انجینئرنگ یونی ورسٹی ، انوائر نمینٹل انجینئرنگ میں ایم ایس سی کی ڈگری دیتی ہے، جب کہ کراچی یونی ورسٹی ماحولیاتی سائنس میں ایم ایس سی کی ڈگری دیتی ہے۔
:داخلے کی اہلیت
این ای ڈی یونی ورسٹی، مہران یونی ورسٹی اور لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں ایم ایس سی میں داخلے کے لیے کم از کم مطلوبہ قابلیت بی ای/بی ایس سی انجینئرنگ ہے۔ کراچی یونی ورسٹی میں ایم ایس سی انوائر نمینٹل سائنس میں داخلے کے لیے بی ایس سی ہونا ضروری ہے۔
ان تمام یونی ورسٹیوں میں داخلے عموماً اکتوبر کے مہینے میں ہوتے ہیں اور اس کی اطلاع اخبارات میں اشتہارات اور خبروں کے ذریعے دی جاتی ہے۔
:نصاب
این ای ڈی یونی ورسٹی میں ماحولیاتی انجینئرنگ کا نصاب کل36کریڈٹس پر مشتمل ہے۔ نصاب کی تفصیل یہ ہے:
لازمی: اطلاقی شماریات اور کمپیوٹر ریاضی۔ اطلاقی کیمیا اور خورد حیاتیات۔ آب، گنداب کی اصلاح اور انجینئرنگ۔ ماحولیاتی انجینئرنگ لیبارٹری۔ ماحولیاتی (حلقہ جاتی کارروائی و عملیہ)۔ موزوں ٹیکنالوجی (سیمینار)
اختیاری نصاب: ٹھوس فضلہ جات کی نظمیات (سالڈ ویسٹ مینجمنٹ) صنعتی گندے پانی کی آلودگی اور کنٹرول۔ اطلاقی آبیات۔ فضائی آلودگی اور شور پر تحدید (کنٹرول)۔ ماحولیاتی انجینئرنگ میں نمونہ کاری (ماڈلنگ)۔ اصلاحِ آب اور دوبارہ استعمال۔ ماحولیاتی اثرات اور معیاری نظمیات (کوالٹی مینجمنٹ)۔ تحقیقاتی مطالعہ (ریسرچ اسٹڈی)۔
اطلاقی شماریات اور کمپیوٹر ریاضی متعارف کرانے کا اصل مقصد مستقبل کے ماہرینِ ماحولیات میں نمونہ بندی، تخمینہ سازی، شماریاتی جانچ پڑتال اور نتائج کا تجزیہ کرنے میں کمپیوٹر کے زیادہ سے زیادہ بہتر استعمال کی اہلیت پیدا کرنا ہے۔ اسی طرح چوں کہ ماحولیاتی تحقیق کا دائرۂ عمل زمین، پانی اور فضا میں پائی جانے والی آلودگی ہے اس لیے طلبہ کو پانی، گندے پانی، ہوا، ٹھوس گنداب (ایسا گندہ پانی جس میں ٹھوس اجزا زیادہ ہوں) آکسیڈیشن، خورد نامیات کے کیمیائی اور حیاتیاتی عوامل کے تجربات کے لیے اطلاقی کیمیا اور خورد حیاتیات میں مہارت حاصل ہونا ضروری ہے۔ گندے پانی کے دوبارہ استعمال کے لیے اس کی اصلاح کرنے والے آلات اور دیگر تنصیبات کی ضروری تربیت بھی اس میں شامل ہے۔ طلبہ کو ماحولیاتی انجینئرنگ کی تجربہ گاہ میں کافی وقت گزارنا ہوتا ہے اور اس کے استعمالات کی تربیت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ طلبہ ماحولیاتی علوم کے موضوع پر پاکستان اور دوسرے ترقیاتی ملکوں کے تعلق سے سیمیناروں میں شریک ہوتے ہیں۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ یا گندے پانی کی نظمیات اس تربیت کا اہم ترین جزو ہے۔ تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں بلدیاتی گنداب کو ٹھکانے لگانے کا مسئلہ روز بہ روز شدت اختیار کر رہا ہے۔ صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ اس گنداب میں کارخانوں اور فیکٹریوں کے فضلہ جات کی شمولیت نے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔چناں چہ دنیا بھر میں ماہرین کے درمیان اس امر پر کلی اتفاق ہے کہ اس گنداب کو اگر اصلاح اور درستی کے بغیر دریاؤں ، سمندروں اور جھیلوں میں ڈالا جاتا رہا تو آئندہ صدیوں میں کرۂ ارض کا پانی اتنا آلودہ اور زہریلا ہوجائے گا کہ صاف پانی کا حصول ناممکن بن جائے گا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بڑے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی اور شور و غل کے مسائل انتہا پر پہنچے ہوئے ہیں مثلاً کراچی شہر کے وسط میں تبت سینٹر سے لے کر کیپری سینما تک کے علاقے میں اتنی فضائی آلودگی ہوتی ہے کہ چند گھنٹے اس فضا میں گزارنے والے انسان کی اوسط عمر طبعی پانچ سال کم ہوجاتی ہے۔ شور و غل بھی آلودگی کی ایک قسم ہے جس سے درجنوں اقسام کی ذہنیاور نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
:سہولتیں
چاروں جامعات میں، جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے، ماحولیات میں تعلیم، تدریس اور تحقیق کے لیے اعلیٰ قسم کی سہولتیں موجود ہیں۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور انوائر نمینٹل انجینئرنگ کے موضوع پر سیمینار لائبریریاں قائم ہیں جن میں مختلف بین الاقوامی ایجنسیوں مثلاً عالمی ادارۂ صحت، ایشیا فاؤنڈیشن، برٹش کونسل اور ورلڈ بینک کے تعاون سے کتابیں، تحقیقی جرائد (ریسرچ جرنلز) اور تازہ ترین مقالات رکھے جاتے ہیں۔ لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں مندرجہ دیل تجربہ گاہیں قائم کی گئی ہیں۔ 1۔آبی آلودگی پر کنٹرول کی تجربہ گاہ
۔ خورد حیاتیات کی تجربہ گاہ 3 ۔ فضائی آلودگی کی جانچ پڑتال کی تجربہ گاہ4 ۔تجربہ گاہ قبل از درجہ فضیلت
(انڈر گریجویٹ لیبارٹری)
ان تجربہ گاہوں میں طلبہ کے علاوہ شہری اداروں کو بھی جانچ پڑتال کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے تحت شہری خدمات انجام دینے والے اداروں کے علاوہ انجینئرنگ کے اداروں، صنعتوں اور کارخانوں میں خدمات انجام دینے والے عملے کی تربیت کے لیے مختصر مدت کے کورسز کرائے جاتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے تحت ان شعبوں میں مشاورتی خدمات فراہم کی جاتی ہیں:
1۔ صاف پانی اور گندے پانی کی جانچ پڑتال۔ -2شہری/دیہی آب رسانی اور آب نکاسی کے مسائل کی تحقیقات۔ 3۔ صاف پانی اور گنداب کی اصلاح کی سہولتوں کی منصوبہ بندی اور ڈیزائننگ۔ -4 ماحولیاتی انجینئرنگ کے منصوبوں کی ممکن العمل تیاری کے مطالعے۔
:بیرون پاکستان ماحولیات کی تعلیم
ماحولیات کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز 1960ء کے عشرے میں ہوا تھا۔ اس اعتبار سے ماحولیات ایک جدید علم ہے۔ امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں ماحولیات کی تعلیم کو ابتدائی درجوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک ہر سطح پر متعارف کرا دیا گیا ہے۔ ماحولیات کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ماحولیات کے مختلف پہلوؤں پر تخصیص کو مد نظر رکھتے ہوئے علیحدہ علیحدہ نصابات مرتب کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر یونی ورسٹی آف ڈینور اور یونی ورسٹی آف وانڈر بلٹ میں ماحولیاتی انجینئرنگ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ پرسٹن یونی ورسٹی میں شہری منصوبہ بندی کے تعلیمی پروگرام میں اکولوجی کو داخل نصاب کیا گیا ہے۔ کولوریڈو یونی ورسٹی میں ماحولیاتی قوانین کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جارجیا یونی ورسٹی میں ماحولیات کی تعلیم زراعتی علوم، بیطاری علوم اور جنگلات کے علوم میں تخصیص کے ساتھ دی جاتی ہے۔ جب کہ یونی ورسٹی آف جنوبی کیلی فورنیا ’’اربن اکولوجی‘‘ میں تخصیص کراتی ہے۔
:حالاتِ کار اور مواقع
ماحولیات کا دائرۂ عمل جدید زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں قانون سازی کے ذریعے ہر کارخانے اور فیکٹری کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ ماحولیاتی ضوابط کی پابندی کریں۔ چناں چہ اب صنعت و حرفت کے متعلق ہر یونٹ اور ہر ادارے میں ماحولیاتی کارکنوں اور سائنس دانوں کی ہزاروں اسامیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ملکوں میں ماحولیاتی قانون سازی اپنے ابتدائی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ حکومت کی جانب سے چاروں صوبوں میں ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسیاں قائم ہیں۔ اندازہ ہے کہ ابتدا میں ہر صوبے میں سالانہ دو سو ماحولیاتی سائنس دانوں کی ضرورت ہوگی۔ اس وقت بھی صورتِ حال یہی ہے کہ تربیت یافتہ ماحولیاتی کارکنوں اور سائنس دانوں کی سخت کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے سرکاری اداروں، صنعتی مراکز، کارپوریشنوں، نجی صنعتوں، کارخانوں، فیکٹریوں کے علاوہ ملک بھر میں بلدیاتی اداروں کو بڑے وسیع پیمانے پر اپنے ماحولیاتی تحفظ کے شعبوں کے لیے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے۔ نجی اور سرکاری شعبے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ عالمی ادارۂ صحت اور عالمی بینک کی امداد سے متعدد ادارے قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح ماحولیات کا شعبہ مستقبل قریب میں غیر معمولی سرگرمی اور بے روزگاری کے دباؤ کو کم کرنے میں کافی ممد و معاون ثابت ہوگا۔ سرکاری شعبے میں بیچلرز ڈگری کے حامل افراد کو قومی پے اسکیل بی16اور بی17 میں اور ماسٹرز ڈگری کے حامل افراد کو بی18 اور اس سے اوپر کے اسکیلوں میں ملازمتیں فراہم کی جاتی ہیں۔
نجی شعبے میں اس سے بھی زیادہ مشاہروں کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ماحولیات کے مضمون کی اہمیت اور قدر و قیمت کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ 1991ء میں این ای ڈی یونی ورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرن مینٹل انجینئرنگ کے تحت ایم ایس سی کے داخلوں میں صرف 25 نشستوں کے لیے امیدواروں کی تعداد تین سو سے زیادہ تھی۔
مزید معلومات
ماحولیات اور اس سے متعلقہ تمام پیشوں کے بارے میں تفصیلی معلومات ان اداروں سے حاصل ہوسکتی ہیں:
1۔ڈائریکٹر، انسٹیٹیوٹ آف انوائرنمینٹل انجینئرنگ اینڈ ریسرچ،
این ای ڈی یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کراچی
2۔رجسٹرار، کراچی یونی ورسٹی، کراچی
3۔ڈائریکٹر، پوسٹ گریجویٹ اسٹڈیز ،
مہران یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جا م مشورو، سندھ
4۔ڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اینڈ ریسرچ،
لاہور یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور
5۔ڈائریکٹر، انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایجنسی،4۔لٹن روڈ،لاہور
6۔ڈائریکٹر، سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی،
ایف ۔1/بی۔2 بلاک 7 کلفٹن، کراچی
7۔انوائرنمنٹ اینڈ اربن افیرز ڈویژن اسلام آباد۔