کیریر
طب میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع
پری میڈیکل میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان کامیاب کرنے والے وہ طلبہ و طالبات میڈیکل کالجوں میں داخلے کے اہل ہوتے ہیں جو اوپن میرٹ یا کوٹے کی بنیاد پر مقرر کیے جانے والے نمبروں سے زیادہ نمبر حاصل کرسکے ہوں۔ میڈیکل کالج کے پانچ سالہ نصاب کی تکمیل پر نوجوان گریجویٹس کو ایم بی بی ایس کی سندھ عطا کی جاتی ہے جو طب کے شعبے میں کام کرنے کی بنیادی اہلیت ہے۔
پاکستان کے میڈیکل کالجوں سے ہر سال اوسطاً 5000 ڈاکٹر فارغ التحصیل ہوکرعملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے ملک میں ڈاکٹروں کی قلت ہے لیکن چون کہ شہروں میں سہولتیں، آمدنی اور ترقی کے مواقع زیادہ ہیں اس لیے بیش تر ڈاکٹر حضرات شہروں میں ہی کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ شہروں میں ارتکاز کی وجہ سے یہاں طب کے پیشے میں سخت مقابلہ ہے اور صرف وہی حضرات کامیاب ہوسکتے ہیں جو ایم بی بی ایس کی بنیاد ی اہلیت کے علاوہ کوئی اضافی قابلیت، مخصوص قسم کی مہارت اور تجربہ رکھتے ہوں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیز تر پیش قدمی کے اثرات طب کے شعبے میں بھی نمایاں ہیں۔ مسلسل تحقیق اور جستجو کی وجہ سے علمِ طب کی شاخوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس اضافے کی وجہ سے تخصص (اسپیشلائزیشن) کی اہمیت بڑھ گئی ہے بعض شعبوں میں تو مہارت (اسپیشلٹی) سے ایک درجہ آگے افضل مہارت (سپر اسپیشلٹی) کے حامل افراد بھی کام کر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں ترقی کی یہ رفتار تو نہیں ہے لیکن اس کا تھوڑا بہت اثر ضرورہے اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ طب کے شعبے میں جو شخص ترقی کرنا چاہتا ہے اسے صرف ایم بی بی ایس کی سندپر اکتفا کرکے نہیں بیٹھنا ہوگا بلکہ طب کی اعلیٰ تعلیم اور کسی ایک 0شعبے میں مہارت حاصل کرنا ہوگی۔ اس مضمون میں نوجوان ڈاکٹروں کو ایم بی بی ایس کے بعد مستقبل کی منصوبہ بندی کے بنیادی نکات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی سند ہاتھ میں لے کر عملی زاندگی میں قدم رکھنے
کی سند ہاتھ میں لے کر عملی زاندگی میں قدم رکھنے والے نوجوانوں کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ جنرل پریکٹشنر بن جائیں اور تھوڑے بہت سرمائے سے کسی موزوں علاقے میں اپنا کلینک کھول لیں یا کسی اسپتال کی ملازمت اختیار کرلیں۔ دوسرا راستہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کا ہے۔ شہروں میں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد میں موجودگی کی وجہ سے یہ دونوں راستے قدرے مشکل ضرور ہیں لیکن ناممکن نہیں۔
جنرل پریکٹس
اگر کسی نوجوان نے جنرل پریکٹشنز کی حیثیت سے فیملی ڈاکٹر بننے کا راستہ اختیار کیا ہے تو ابتدا میں کچھ غیر حقیقی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چوں کہ میڈیکل کالجوں میں پڑھایا جانے والا نصاب پیشہ طب کے موجود ہ عملی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اس لیے صرف نظری تعلیم اور تربیت کی بنیادپر ڈاکٹر کو آج کے دور کے امراض کا علاج کامیابی سے کرنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ جو بھی ڈاکٹر جنرل پریکٹس میں آنا چاہے اسے چاہیے کہ ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد مزید چھ چھ ماہ مندرجہ ذیل چار شعبوں میں کام کرے اور دو سال کے اس عملی اور قیمتی تجربے کے بعد اپنے کلینک کا آغاز کرے تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ اپنے مریضوں کا تسلّی بخش علاج کرسکے۔ تربیت کے ان چار شعبوں میں عمومی ادویات (جنرل میڈیسن) بچوں کے امراض (پیڈیا ٹرکس) زچہ اور خواتین کے امراض (آبسٹیٹر کس اینڈ گائنا کالوجی) اور نفسیاتی امراض( سائیکاٹری) کے شعبے شامل ہیں۔ دو سال کی یہ تربیت کسی بھی ایسے اسپتال میں حاصل کی جاسکتی ہے جہاں یہ شعبے کام کر رہے ہوں۔
کالج آف فزیشن اینڈ سرجن میں ایم سی پی ایس (فیملی میڈیسن) کے نام جنرل پریکٹس کرنے والوں کے لیے ڈپلوما کورس ہوتا ہے۔ سال میں دو بار امتحان لیا جاتا ہے۔ حال ہی میں فیملی فزیشنز کے لیے ایف سی پی ایس (ان فیملی پریکٹس) کے نام سے فیلو شپ کے امتحان بھی شروع ہوئے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم
جو نوجوان ڈاکٹر طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں ان کے لیے راستے محدود تو نہیں ہیں لیکن کٹھن ضرور ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں کامیابی کے لیے مسلسل جدوجہد، محنت اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ طب کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مختلف نوعیت کی بنیادی اہلیت درکار ہوتی ہے۔
سب سے پہلے امیدوار کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ طب کی کس شاخ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔
دوسرے مرحلے میں امیدوار کو اپنے وسائل اور خاندان کے حالات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ طب کی اعلیٰ تعلیم کہاں حاصل کرنی چاہیے۔ پاکستان میں یا بیرونِ ملک۔
ان دو بنیادی امور کے فیصلے کے بعد اپنی دلچسپی کی شاخ کے بارے میں اور اس شاخ میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہییں اور عملی اقدامات کرنے چاہییں۔ طب کے پیشے کی اعلیٰ تعلیم اندرون ملک بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور بیرونِ ملک بھی، اس مضمون میں دونوں جگہوں پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ابتدائی ضروریات اور طریقہء کار کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں طب کی اعلیٰ تعلیم
پاکستان میں طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان کالج آف فزیشن اینڈ سرجن سے فیلوشپ کے دو امتحان (حصہ اوّل و حصہ دوم) کامیاب کیے جائیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد کسی بھی ٹیچنگ اسپتال میں ملازمت حاصل کرکے اپنی پسند کے شعبے میں ایم ایس کیا جائے۔ ان دونوں طریقوں کی الگ الگ تفصیل درجِ ذیل ہے۔
ایف سی پی ایس کے امتحان کا طریقہ
کالج آف فزیشن اینڈ سرجن کی فیلوشپ کا امتحان دو حصول میں ہوتا ہے۔ ایم بی بی ایس کی سند کا حامل ہر شخص پہلے حصے کے امتحان میں شریک ہوسکتا ہے۔ یہ امتحان سال میں دوبار۔۔۔ اپریل اور اکتوبر میں منعقد ہوتا ہے۔ امتحانی فارم پر کرکے اور امتحانی فیس جمع کراکے اس امتحان میں شرکت کی جاسکتی ہے۔
فیلو شپ کے پہلے حصے کا امتحان طب کے بنیادی مضامین پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ امتحان تین مرحلوں میں مکمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے میں معروضی سوالات کے جوابات دینے ہوتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں دیے ہوئے موضوعات پر مضامین لکھنے ہوتے ہیں۔ تیسرا مرحلہ زبانی امتحان کا ہوتا ہے۔ پہلے دو مرحلوں کو نظری (تھیوری) اور زبانی امتحان کو عملی (پریکٹیکل) سمجھا جاسکتا ہے۔ فیلو شپ کے پہلے حصے کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد دوسرے حصے کے امتحان کی تیاری کرنا چاہیے۔
ایف سی پی ایس کے دوسرے حصے کے امتحان میں شرکت کے لیے ضروری ہے کہ آپ طب کے جس شعبے میں فیلو شپ کرنا چاہتے ہیں اس مخصوص شعبے کا 3 یا 4 سال کا تجربہ آپ کو حاصل ہو۔ بعض شعبوں میں 3 سال کا تجربہ ضروری ہوتا ہے اور بعض میں 4 سال کا تجربہ درکار ہوتا ہے۔ عملی تجربہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو کسی منظور شدہ اسپتال میں مخصوص شعبے میں ملازمت کرنا ہوگی یا کسی تربیتی پروگرام میں شامل ہو کر یہ تجربہ حاصل کرنا ہوگا۔ کالج آف فزیشن اینڈ سرجن کی طرف
کر یہ تجربہ حاصل کرنا ہوگا۔ کالج آف فزیشن اینڈ سرجن کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند امیدواروں کے لیے کسی تربیتی اسکیم کی سہول موجود نہیں ہے اس لیے یہ کام امیدوار کو اپنی ذاتی کوششوں سے کرنا ہوتا ہے ۔اسپتال میں ملازمت حاصل کرنے یا تربیتی پروگرام میں شامل ہوتے وقت کالج آف فزیشن اینڈ سرجن سے منظوری لینا ضروری ہے کہ اس اسپتال کا تجربہ قابل قبول ہوگا۔
تربیت کی اس مدت کے دوران امیدوار کو اپنے مخصوص شعبے کے کسی خاص موضوع پر ایک مقالہ (تھیسس) قلم بند کرنا ہوتا ہے اور کالج آف فزیشن اینڈ سرجن میں داخل کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ مقالہ مطلوبہ معیار کا ہو تو قبول کرلیا جاتا ہے اور اگر اس میں کوئی کمی یا خامی ہو تو امیدوار کو واپس کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ کمی یا خامی دور کرکے دوبارہ پیش کرے۔ جب یہ مقالہ منظور کرلیا جاتا ہے، تب امیدوار دو سال یا تین سال کی عملی تربیت اور اس مقالے کی بنیاد پر فیلو شپ کے دوسرے حصے کے امتحان میں شرکت کا اہل ہوتا ہے۔ حصہ دوم کی امتحانی فیس 1500روپے (دسمبر 88ء) ہے۔ دوسرے حصے کے امتحان کا طریقہ، مختلف مضامین کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ دوسرے حصے کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد امیدوار کو ایف سی پی ایس کی سند عطا کر دی جاتی ہے۔ اور وہ اپنے مخصوص شعبے میں بطور ماہر طب (اسپیشلسٹ) کام کرنے کا اہل ہوجاتا ہے۔
کالج آف فزیشن اینڈ سرجن کے امتحانات کراچی ، لاہور اور راول پنڈی میں ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کسی شہر میں امتحان دینے والے امیدواروں کی معقول تعداد جمع ہوجائے تو متعلقہ شہر میں بھی امتحان کا اہتمام کر دیا جاتا ہے۔ تاہم زبانی امتحان صرف کراچی اور راول پنڈی میں ہوتا ہے۔
یہاں اس بات کی نشان دہی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ فیلو شپ کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد صرف پاکستان ہی میں بہ طور طبی مشیر (میڈیکل کنسلٹنٹ) کام کیا جاسکتا ہے۔ بعض ممالک میں یہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ غیر ملکوں میں فیلو شپ کو آگے کے امتحان یا تربیت میں شرکت کے لیے بنیادی اہلیت سمجھا جاتا ہے اور اگلے مرحلے کا امتحان/تربیت کامیاب کرنے کے بعد ہی کوئی شخص بہ طور طبی مشیر کام کرسکتا ہے۔
ایم ایس کا طریقہ
ایم بی بی ایس کے بعد طب کے کسی خاص شعبے میں ماسٹرز کی سند ایم ایس یا ماسٹرز آف سائنس کہلاتی ہے۔ ایم ایس کرنے کے خواہش مند امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ جس مخصوص شعبے میں وہ ایم ایس کا طلب گار ہے اس میں کم سے کم 4 سال تا 6 سال کا عملی تجربہ حاصل کرے۔
اس کا طریقہ یہ کہ پہلے کسی ٹیچنگ اسپتال میں متعلقہ شعبے کے پروفیسر سے بات کی جائے اور ان کی رضا مندی سے موضوع منتخب کیا جائے اور ان کی نگرانی میں اس خاص مضمون (شعبہ) میں 5،6 برس
فیلو شپ/ممبر شپ کے پہلے حصے کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد دوسرے حصے کے امتحان کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ آپ برطانیہ کے کسی منظور شدہ اسپتال میں ملازمت حاصل کرکے تربیتی پروگرام میں شریک ہوں، لیکن ملازمت حاصل کرنے کے لیے پیشہ ورانہ اور زبان دانی کی اہلیت کا ایک امتحان کامیاب کرنا لازمی ہے جو پی ایل اے بی (پروفیشنل اینڈ لنگویسٹک اسسمنٹ بورڈ) کہلاتا ہے۔ اس امتحان میں امیدوار کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور انگریزی لکھنے بولنے کی اہلیت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ دو امتحانات یعنی فیلو شپ یا ممبر شپ کا پہلا امتحان اور زبان دانی اور پیشہ ورانہ اہلیت کا امتحان کا میاب کرنے کے بعد عام طور پر باآسانی ملازمت مل جاتی ہے۔ ملازمت کے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ متعلقہ اسپتال میں اس مخصوص شعبے کی تربیتی اسکیم ہو جس میں آپ دلچسپی رکھتے ہیں۔ متعلقہ کالج آپ کو تربیت حاصل کرنے کا موقع پورے طور پر فراہم کرتا ہے۔ مختلف شعبوں کے لیے ٹریننگ کی مدت مختلف ہوتی ہے۔ اس تربیت کے دوران امیدوار کو مقالہ تحریر کرنا ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اسے دوسرے حصے (پارٹ ٹو) کے امتحان میں شرکت کی اجازت دی جاتی ہے۔
امریکا میں طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے پہلے پاکستان میں امتحان ہوتا تھا، اب نہیں ہوتا۔ اب امیدواروں کو تھائی لینڈ یا فلپائن جاکر یہ امتحان دینا ہوتا ہے۔
کینیڈا آسٹریلیا میں طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک بنیادی نوعیت کا امتحان کامیاب کرنا ہوتا ہے جسے داخلہ امتحان (انٹرینس ایگزا مینیشن) کہہ سکتے ہیں۔ یہ امتحان پاکستان میں ہوتا ہے اور اس کا اہتمام متعلقہ ملک کی حکومت سرکاری طور پر کرتی ہے۔ اس امتحان میں شرکت کے لیے فارم، کینیڈا، آسٹریلیا کے سفارت خانے یا قونصل خانے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ داخلہ امتحان میں شرکت کی فیس تقریباً 5 سو ڈالر ہے۔
حال ہی میں برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے پوسٹ گریجویٹ کونسل بنائی گئی ہے جو مختلف شعبوں میں تعلیم و تربیت کی نشان دہی، نگرانی اور سرٹی فیکیشن کی ذمہ دار ہوگی۔ نئے نظام کے تحت طب کی تعلیم اور تربیت کے طریقوں میں دور رس اور انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں آئیں گی۔ غیر ملکی ڈاکٹروں کے لیے بھی نئے قوانین بنائے جائیں گے جن کے تحت ان کے ویزا کی مدت، حسبِ ضرورت چار سال سے زیادہ بھی ممکن ہوگی۔
داخلہ امتحان کامیاب کرنے کے بعد متعلقہ ملک کے سفارت خانے/قونصل خانے سے طبی کالجوں اور اسپتالوں کی فہرست حاصل کرکے وہاں ملازمت کے لیے درخواست بھیجنی ہوتی ہے اس کے جواب میں متعلقہ اسپتال/کالج اپنا چھپا ہوا فارم ارسال کر دیتا ہے جسے پر کرکے بھیجنے پر، امیدوار کے کوائف کمپیوٹر میں داخل کر دیے جاتے ہیں اور امیدوار کی اہلیت کے مطابق اسے ملازمت کی پیش کش کردی جاتی ہے۔
ملازمت کے ساتھ ہی مہارت داخلہ امتحان کامیاب کرنے کے بعد متعلقہ ملک کے سفارت خانے/قونصل خانے سے طبی کالجوں اور اسپتالوں کی فہرست حاصل کرکے وہاں ملازمت کے لیے درخواست بھیجنی ہوتی ہے اس کے جواب میں متعلقہ اسپتال/کالج اپنا چھپا ہوا فارم ارسال کر دیتا ہے جسے پر کرکے بھیجنے پر، امیدوار کے کوائف کمپیوٹر میں داخل کر دیے جاتے ہیں اور امیدوار کی اہلیت کے مطابق اسے ملازمت کی پیش کش کردی جاتی ہے۔
ملازمت کے ساتھ ہی مہارت کے مطلوبہ شعبے میں تربیت کا اہتمام بھی کرنا ہوتا ہے۔ کم سے کم تربیتی مدت چار سال ہے لیکن اگر پہلے سال کے دوران ہی اساتذہ امیدوار کے کام اور ترقی کی رفتار سے مطمئن نہ ہوں تو امیدوار کو واپس کر دیا جاتا ہے۔
امریکا میں چار سال کی تربیت کے بعد امیدوار بورڈ کے امتحان میں شرکت کا اہل ہوجاتا ہے۔ (وہاں ایک ہی امتحان ہوتا ہے، برطانیہ اور پاکستان کی طرح دو حصے نہیں ہوتے) امتحان کامیاب کرنے کے بعد آپ کو متعلقہ شعبے کا ماہر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
آخر میں ایک اہم بات کی نشان دہی ضروری ہے۔ انگلستان اور یورپ کے کئی ممالک میں بعض ادارے بھاری معاوضوں کے عوض طب کے شعبے میں ڈپلوما جاری کرتے ہیں لیکن اس ڈپلومے کی کوئی وقعت نہیں ہے کیوں کہ یہ سندیں خود ان ممالک کی جامعات اور میڈیکل کالج تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی انھیں دنیا میں کسی اور جگہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ غیر منظور شدہ اداروں کے جاری کردہ ڈپلومے اور سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر، خود کو ماہر قرار دینا اور اس حیثیت سے پریکٹس کرنا غیر قانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ اس لیے اگر کوئی ڈاکٹر کسی ادارے سے مختصر مدت کا سرٹیفکیٹ یا ڈپلوما حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو پہلے متعلقہ ملک کی جامعات اور پاکستان میڈیکل کونسل سے خط و کتابت کے ذریعے یہ تصدیق کرلینی چاہیے کہ مطلوبہ سرٹیفکیٹ یا ڈپلوما تسلیم شدہ ہے یا نہیں۔ امید ہے کہ اس مضمون سے ان نوجوان ڈاکٹروں کو ابتدائی اور بنیادی نوعیت کی معلومات حاصل ہوگئی ہوں گی جو اعلیٰ تعلیم کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ڈپلوما اِن چائلڈ ہیلتھ (ڈی سی ایچ)
ایم بی بی ایس کے بعد پاکستان میں بچوں کی صحت کے شعبے میں نو ماہ کا یہ ڈپلوما کورس کامیاب کرکے جونیئر کنسلٹنٹ کی ملازمت حاصل کی جاسکتی ہے۔ امتحان کے لیے بنیادی اہلیت ایم بی بی ایس کی سند اور بچوں کے علاج کے شعبے میں ایک سال کا ہاؤس جاب ہے۔ یہ سندپاکستان اور بیرونِ ملک تسلیم کی جاتی ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف
بیرون ملک طب کی اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم، تعلیم کی صوبائی وزارتیں، یونیسکو، برٹش کونسل، آغا خان فاؤنڈیشن پاکستانی ڈاکٹروں کو وظائف دیتے ہیں۔