Connect with us

بلاگ

کیا مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کیلئے باعزت روزگار کا انتظام ہے؟

Published

on

ماہ شعبان میں دینی مدارس کا تعلیمی سال عام طور پر مکمل ہو تا ہے۔ چنانچہ اس ماہ تقریباً ہر مدرسہ تقریب تقسیم اسناد و انعامات منعقد کر تا ہے درس نظامی مکمل کرنے والوں کے لیے صحیح بخاریکی آخری حدیث کا درس ہو تا اس کے بعد  آخری تقریب میں طالب علموں کو سند فراغت عطا کر تے ہوئے رہنمائی اور حوصلہ و ہمت افزائی کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہو تی ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ منتظمین مدارس جب تک طالب  مدرس    میں پڑھ رہا ہو تا ہے اس وقت تک تو اس کی ضروریات کا پورا خیال رکھتے ہیں لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدرسے سے رخصت کر تے ہوئے طالب علم کو جس رہنمائی اور تعاون کی ضرورت ہو تی ہے وہ فراہم نہیں کر تے۔ طالب علم اب عملی میدان میں قدم رکھ رہا ہے۔ نسبتاً بے فکری کی زندگی سے فکرات کی زندگی کی طر ف آرہا ہے یہاں کے مسائل ہیں اس نے چند سال لگا کر جو دینی تعلیم حاصل کی ہے اس کا مصرف کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ اخلاص کے ساتھ اپنی دینی تعلیم سے معاشرے کو فائدہ بھی پہنچائے اور با عزت طریقے سے اس کی ضروریات بھی پوری ہو  سکیں؟ تقسیم اسناد کی تقاریب میں، میں نے کہیں نہیں دیکھا کہ طالب علم کو اس اعتبار سے کوئی رہنمائی فراہم کی گئی ہو۔

یہ ہمارا المیہ ہے چند سال تک وقف ہو کر مدرسے میں تعلیم حاصل کر کے فارغ ہونے والے کے لیے ہمارے پاس نصیحتیں تو بہت ہو سکتی ہیں مثلاً اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت کرنا، اﷲ پر تو کل اور بھروسہ کرنا، خود داری کے ساتھ زندگی گزارنا، دین کو کاروبار مت بنانا لیکن عملی زندگی کے حوالے سے واضح رہنمائی کسی کے پاس نہیں ہے کہ بھئی فلاں فلاں جاب تمہاری منتظر ہے
جہاںتمہیں دین کی خدمت کا بھی پورا پورا موقع ملے گا اور تمہاری ضروریات کا بھی مکمل خیال رکھا جائے گا۔

اس فارغ التحصیل طالب علم کے لیے ایسے روزگار کے مواقع کہاں ہیں جہاں اس کا علم محفوظ رہے۔ معاشرے کو فائدہ پہنچے اور باعزت روزگار بھی ہو؟ فارغ ہونے کے بعد اگر عصری تعلیم طالب علم کے پاس نہیں ہے تو سرکاری ملازمت تو اسے مل نہیں سکتی۔ تعلیم کی مشغولیت کی وجہ سے وہ کوئی ہنر بھی نہیں سیکھ سکا لہٰذا اس بنیاد پر بھی اس کے روزگار کا بندوبست نہیں ہو سکتا پرائیوٹ کمپنیوں اور اداروں میں اس کی اہلیت کی مناسبت سے کوئی ملازمت نہیں ہو تی۔ لے دے کر مدارس میں تدریس یا مساجد میں امامت و خطابت کی ملازمتیں رہ جاتی ہیں۔ مدارس میں پہلے ہی اساتذہ پورے ہو تے ہیں کوئی آسامی خالی نہیں ہو تی اگر ہو بھی اور اسے ملازمت مل بھی جائے تو تنخواہ اتنی کم ہو تی ہے کہ کمائی کے کوئی مزید ذرائع تلاش کیے بغیر گزارہ ممکن نہیں ہو تا جبکہ منتظمین کے ہاتھوں اس کی عزت نفس علیحدہ مجروح ہو تی رہتی ہے۔

مساجد میں امامت و خطابت کا ملنا بھی اس لیے مشکل ہو تا ہے کہ سال میں سینکڑوں طالب علم فارغ ہوتے ہیں جبکہ مساجد کی آسامیاں درجنوں بھی نہیں ہو تیں۔ مثلاً فرض کریں کراچی کے مدارس سے اس سال تقریباً ساٹھ طالب علم فارغ ہوئے لیکن کراچی میں گزشتہ سال دس مساجد بھی نئی تعمیر نہیں ہوئیں۔ مساجد کے منتظمین کا حال بھی برا ہے۔ ایک تو تنخواہ کم دی جا تی ہے دوسرا عزت نفس مجروح کی جاتی ہے۔

تیسری بات یہ کہ اس کی ملازمت تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہو تی ہے نہ جانے کس سیٹھ صاحب یا چوہدری صاحب کو امام صاحب کی کوئی ادا بری لگ جائے اور کب وہ انہیں ایک ہفتے کے نوٹس پر مسجد چھوڑنے کا حکم دے دیں۔ حفظ و ناظرہ کے چھوٹے مدارس کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے تنخوااہ کم اور ملازمت غیر یقینی۔ مذکورہ صورتحال کا فطری نتیجہ یہ رہے گا کہ دین کی خدمت کے جذبے سے تعلیم حاصل کر کے میدان عمل میں اترنے والا شخص اپنی فطری ضروریات کی تکمیل کے لیے فکر مند رہے گا اور گردش روزگار میں اسی طرح الجھ جائے گا کہ دین کے لیے کوئی قابل ذکر خدمات انجام نہ دے سکے گا وہ ذرائع آمدن بڑھانے کے لیے ہاتھ پیر مارے کا گھروں میں جاکر ٹیویشن پڑھائے گا یا پارٹ ٹائم کوئی ملازمت یا کاروبار کی طرف توجہ دے گا۔ نہ اس کے پاس مطالعے کا ٹائم ہو گا نہ تصنیف و تالیف اور تحقیق کے لیے وقت۔

ایسی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی خودداری کو خیر باد کہہ دے اور آمدنی کے ایسے ذرائع استعمال کر ے جو عالم دین ہونے کی حیثیت سے اس کے شایان شان نہیں۔ عام طور پر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مدرسے کے طالب علم کے ذہن میں مستقبل کا منصوبہ یہ ہو تا ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ لوگوں سے چندہ لیکر اپنی علیحدہ مسجد بنائے گا یا علیحدہ مدرسہ قائم کرے گا جن کے ذہن میں نہیں بھی ہو تا وہ حالات سے مجبور ہو کر ایسی مہم پر نکل کھڑے ہو تے ہیں۔ اسی لیے غیر ضروری طور پر مدارس قائم ہو رہے ہیں کراچی کے دینی مدارس میں جتنے طالب علم ہیں اگر وہ جامعہ ابی بکر اور جامعہ ستاریہ میں جمع کر دیے جائیں تو با سانی کفایت کرجائیں گے۔ بخاری کی کلاس میں اگر دس طالب علم بیٹھتے ہیں تو تیس طالب علم بیٹھ گئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اپنے علیحدہ مدارس و مساجد قائم کرنے کے جنون میں جب عالم دین چندے کی مہم پر نکلتا ہے تو کہیں منت سماجت کرنا پڑتی کہیں دوباتیں سننا پڑتی ہیں کہیں عزت نفس مجروح کرانا پڑتی ہیں ۔جھوٹ اور چالاکی کا ارتکاب بھی کرنا پڑ جا تا ہے یہاں تک کہ اس کی ساری دینی تعلیم و تربیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔
فارغ التحصیل عالم دین کے لیے مستقبل سنوارنے کا ایک موقع یہ بھی فراہم کیا جا سکتا تھا جس سے محروم رکھا گیا ہے کہ درس نظامی کی تکمیل کے بعد دین کی مزید اعلیٰ تعلیم مختلف مضامین میں تخصص کی تعلیم کے لیے ادارے قائم ہوتے جہاں طالب علم کو مزید نکھارا جا تا اس کے لیے عصری تعلیم کے مواقع بھی مفت فراہم کیے جاتے ہیں اعلیٰ عصری تعلیمی ڈگریاں حاصل کر کے اچھی سرکاری ملازمتیں حاصل کر تا اور دین کی زیادہ بڑے پیمانے پر خدمت کر تا۔ مسجد میں فی سبیل اﷲ امامت و خطابت کر تا اپنے خرچ پر دینی لٹریچر چھپوا تا۔ مستقبل سنوارنے کے اس موقع سے بھی درس نظامی کے فارغ کو محروم رکھا گیا ہے بڑی بد قسمتی کی بات ہے۔

دینی مدرسے کے فارغ طالب علم کو در بدر کرنے اور گندا کرنے کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس سوال کا جواب بھی مل جا تا ہے کہ شہری علاقوں اور کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے دینی تعلیم کے حصول کی جانب کیوں متوجہ نہیں ہو تے۔

دینی مدرسے کے طالب علم کا مستقبل تمام اہل فکر و نظر اور ہماری دینی قیادت کے لیے قابل توجہ موضوع ہے اگر ہم نے اس طبقے کو ترقی کے مواقع فراہم نہ کیے با عزت طریقے سے ان کی دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل نہ کی تو دو صورتیں متوقع ہیں یا تو چند سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد طالب علم اس لائن کو ترک کر کے دیگر شعبوں کو اختیار کر لے گا زمینداری کرے گا کاروبار کرے گا یا کوئی اور اچھی ملازمت کرے گا اگر وہ ایسا کر تا ہے تو چند ہی سالوں میں وہ اس علم سے محروم ہو جائے گا جو اس نے مدرسے میں چند سال لگا کر حاصل کیا تھا۔ دوسری صورت میں وہ جائز ناجائز حربے استعمال کر کے اس دینی لائن میں ہی قائم رہے گا تنخواہ سے اس کی ضرورت پوری نہ ہو گی تو وہ تعویذ گنڈے شروع کر دے گا یا لوگوں کو اپنی مجبوریاں بیان کر کے ان کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا یا اپنی مسجد و مدرسے کے نام پر در بدر ہو کر چندہ کرے گا بحرحال اگر اس حوالے سے توجہ نہ دی گئی تو معاشرتی بگاڑ کے خاتمے کے لیے دینی مدارس کا کر دار نہایت محدود ہو کر رہ جائے گا۔

بشکریہ حدیبیہ

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *