متفرق
بہترین اساتذہ ترقی یافتہ اور با شعور قوم کی ضمانت
بہترین اساتذہ ترقی یافتہ اور با شعور قوم کی ضمانت
ہر شعبہء زندگی میں افراد کار کی روز افزوں ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بنیادی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری معلم یا مدرّس پرعائد ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتی ہے جہاں وہ مختلف اشیا اور کے ناموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا سیکھتا ہے۔ لیکن بعد کی زندگی میں اسے ان لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے جو تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل سے گزار کر اسے عملی زندگی میں قدم رکھنا سکھاتے ہیں۔ تمام والدین کے پاس اتنا وقت اور صلاحیتیں نہیں ہوتیں کہ وہ تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں بچوں کو شامل کرنے کے قابل بنا سکیں۔ لہٰذا انھیں اساتذہ کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ تدریس کے مراحل میں اضافہ اور طریقہء کار میں مسلسل تبدیلی واقع ہوتی جارہی ہے چناں چہ شعبہء تدریس میں داخل ہونے والوں، یعنی اساتذہ کی اپنی تیاری کا کام بھی سائنسی انداز اختیار کرتا جارہا ہے اور جب یہ اساتذہ اپنے تربیتی مراکز سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو مختلف عمروں کے بچوں اور بڑوں کی تعلیم و تربیت کے فن سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ تدریسی شعبے سے وابستہ افراد اس قدر زیادہ اور متنوع سطحوں پر فرائض انجام دیتے ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنا یہاں دشوار ہے لہٰذا ہم اس مضمون میں صرف ابتدائی و ثانوی اسکول ، کالج اور یونی ورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دینے والے اساتذہ کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
ذاتی خصوصیات
ہر پیشے کی طرح تدریس میں آنے والے افراد کو بھی بعض خصوصی صفات کا حامل ہونا چاہیے۔ پیشہء تدریس میں داخل ہونے والے کو سب سے پہلے اپنی جسمانی و ذہنی سطح کے بارے میں مکمل اطمینان کرلینا چاہیے کہ وہ اوسط سطح سے بلند ہے۔ افراد، اشیا اور اصول و قوانین کے صحیح ادراک کی صلاحیت سے عاری افراد تدریس میں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوسکتے۔ انسانوں سے محبت اور میل جول، صبر و تحمل اور فنِ گفتگو پر عبور، کسی بھی شخص کو اچھا مدرس بنانے کے لیے ضروری ہے۔ استاد کے لیے لازم ہے کہ اس میں ایثار و قربانی کا جذبہ بھی بیدار ہو۔
اساتذہ کا زیادہ تر واسطہ اور رابطہ عموماً بچوں اور نوجوانوں سے ہوتا ہے اس لیے ان کا حاضر دماغ و حاضر جواب، خوش لباس، خوش اخلاق اور بعض صورتوں میں پر مزاح ہونا زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ لطائف و واقعات اور کہانی قصوں کا موقع محل کی مناسبت سے استعمال مدرّس کے کام کو آسان بنا دیتا ہے، اور ان سب سے بڑھ کر علم کی مسلسل جستجو، ان تھک محنت کی عادت اور اپنے کام سے والہانہ لگاؤ ہی کسی مدرّس کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ان میں سے جس قدر زیادہ صلاحیتیں کسی شخص میں موجود ہوں گی، وہ اتنا ہی کامیاب استاد ہوگا۔ تدریس سے وابستہ لوگوں کو اپنے شاگردوں پر مسلسل توجہ، ان کی ہر وقت نگہ داشت اور جذبہء ایثار کے ساتھ نرم و شائستہ انداز میں رہنمائی کرنا ہوتی ہے۔ اس لیے یہ شعبہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ بالخصوص ابتدائی(پرائمری) سطح کی تعلیم کا اگر پورا نظامِ صحت مند، ذہین اور محنتی خواتین کے حوالے کردیا جائے تو زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
حالاتِ کار
تدریس کوئی جز وقتی پیشہ نہیں بلکہ اساتذہ کو اپنے طلبہ کی فلاح و بہبود کے لیے ہمہ وقتی ذہنی اور جسمانی محنت و مشق کے لیے تیار رہنا ہوتا ہے۔ کمرۂ جماعت میں انھیں جو سبق پڑھانا ہو، اس کے لیے ایک روز پہلے سبق کے تمام مراحل کی منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ پھر کلاس کے ہر بچے کی خوبیوں اور خامیوں کو مدِنظر رکھ کر اسی مناسبت سے ان پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سبق کے اختتام پر عمومی جائزہ لے کر نتائج کا اندازہ کیا جاتا ہے اور آخر میں ہوم ورک تفویض کرکے کمرۂ اساتذہ میں گزشتہ روز کے ہوم ورک کی جانچ کی جاتی ہے۔ غبی اور کم زور طالب علموں کو جماعت کے ساتھ لے کر چلنے کے طریقے سوچے جاتے ہیں۔
تدریس کا عمل خوش گوار ماحول کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس پیشے سے وابستہ افراد مختلف اور متنوع سرگرمیوں کے باعث یکسانیت اور بوریت سے محفوظ رہتے ہیں۔ کلاس روم میں سبق دینے میں اگر کوئی تکان محسوس بھی ہو تو وہ دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں دورہوجاتی ہیں۔ مصوری، مضمون نویسی اور تقاریر کے مقابلے، مباحثے، بیت بازی ادبی پروگرام، سالانہ جلسے اور کھیلوں کے مقابلے وغیرہ اساتذہ کو ہر وقت چاق چوبند ، مستعد اور خوش مزاج و بذلہ سنج رکھتے ہیں۔ دیگر اساتذہ، طلبہ اور ان کے والدین کی کثیر تعداد کے ساتھ ہمہ وقت رابطے کے باعث ہر استاد کی علمی قابلیت، معلومات اور تعلقات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، بھرپور سماجی زندگی پسند کرنے والوں کے لیے تدریس کا پیشہ نہایت مناسب ہے۔ دیہات اور چھوٹے شہروں میں مالی مفادات سے زیادہ انھیں معاشرے میں عزت و شہرت حاصل ہوتی ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں شاگردوں کی موجودگی ان کے چھوٹے بڑے تمام مسائل کو آسانی سے حل کرنے کا سبب بنتی ہے۔ علاوہ ازیں سال میں دو مرتبہ موسمِ گرما اور موسمِ سرما کی تعطیلات اساتذہ کو تازہ دم کردینے کا سبب بنتی ہیں۔
تنخواہیں
سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو جوتنخواہیں دی جاتی ہیں وہ ان کی اپنی تعلیمی قابلیت اور اوقاتِ کار کے لحاظ سے دوسرے شعبوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ دی ہوئی جدول سے مختلف سطح پر کام کرنے والے اساتذہ کی تنخواہوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تنخواہیں سرکاری اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کی ہیں، نجی اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں ان سے کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں۔ پرائمری اسکول میں میٹرک اور پی ٹی سی (پرائمری ٹیچنگ سرٹیفکیٹ) قابلیت کے اساتذہ گریڈ 7 میں ملازم رکھے جاتے ہیں۔ مڈل اسکول میں انٹر میڈیٹ کے ساتھ سی ٹی (سرٹیفکیٹ آف ٹیچنگ) کی قابلیت اور اساتذہ کابہ طور جے ایس ٹی ( جونیئر اسکول ٹیچر) گریڈ 9 میں تقرر کیا جاتا ہے۔ سیکنڈری اسکول میں گریجویشن کے ساتھ بی ایڈ ( بیچلر آف ایجوکیشن ) کی سند کے حامل اساتذہ گریڈ 15 میں بہ طور ایچ ایس ٹی (ہائی اسکول ٹیچر) کے طور پر تعینات کیے جاتے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر اور سبجیکٹ اسپیشلسٹ اساتذہ کمپری ہینسو اسکولوں میں گریڈ 17 میں مقرر ہوتے ہیں۔ انھیں تنخواہ اور عام الاؤنس کے علاوہ اضافی الاؤنس بھی ملتا ہے۔
علوم شرقیہ، ڈرائنگ ٹیچر اور فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر کے طور پر جو اساتذہ مقرر کیے جاتے ہیں ان کی تنخواہیں، تعلیمی و تربیتی قابلیت کے مطابق، جے ایس ٹی کے برابر گریڈ 9 اور ایچ ایس ٹی کے مساوی گریڈ 15 کے مطابق ہوتی ہیں۔
نصاب
اساتذہ کی تربیت کے لیے نصاب کی عمومی مدت ایک سال ہوتی ہے۔ پرائمری اسکول میں استاد بننے کے خواہش مند نوجوانوں کو میٹرک کے بعد پی ٹی سی میں داخلہ لینا ہوتا ہے اسی طرح جے ایس ٹی کے انٹرمیڈیٹ کے بعد ،سی ٹی اور ایچ ایس ٹی کے لیے گریجویشن کے بعد بی ایڈ میں داخلہ لے کر نصاب مکمل کرنے اورامتحان پاس کرنے کی شرط ہے۔ ان میں سے ہر تربیتی کورس کا دورانیہ ایک، ایک سال ہے۔ اس عرصے میں انھیں لازمی مضامین کے علاوہ دو تدریسی مضامین کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ ہر تدریسی مضمون کے 20 اسباق کی باقاعدہ منصوبہ بندی اور تمام تدریسی مراحل کا رجسٹریشن میں اندراج کرنے کے بعد کسی اسکول کے کلاس روم میں جاکر باقاعدہ پڑھانا ہوتا ہے۔ سال کے اختتام پر دونوں تدریسی مضامین کا عملی امتحان ہوتا ہے۔ یعنی ممتحن کی موجودگی میں مقررہ کلاس کو پڑھایا جاتا ہے۔ اس دوران ممتحن سبق کی تیاری کے مراحل کے علاوہ استاد کی شخصیت، خوش خطی، لباس، آواز ، پڑھانے کا انداز، کلاس میں نظم و ضبط، اور طلبہ پر سبق کے اثرات و نتائج کا جائزہ لے کر نمبر دیتا ہے۔
پی ٹی سی ، سی ٹی اور بی ایڈ کے لیے کم و بیش مندرجہ ذیل مضامین لازمی ہیں: اسلامیات، فلسفہ ء تعلیم، نفسیات اورنظم و نسق مدرسہ۔ ان کے علاوہ مضامین کی ایک طویل فہرست میں سے کوئی دو تدریسی مضامین منتخب کرنا ہوتے ہیں مثلاً اردو اور معاشرتی علوم یا ریاضی اور انگریزی اور معاشرتی علومِ یا اردو اور تاریخ وغیرہ۔
علوم شرقیہ میں مولوی عالم کا امتحان پاس کرنے والے استاد پرائمری اسکول میں، مولوی عالم کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کرنے یا درسِ نظامی سے فارغ ہونے والے استاد مڈل اسکول میں (جے ایس ٹی) اور وفاق المدارس سے الشہادۃ الفضیلہ کی سند کے حامل استاد کا تقرر ایچ ایس ٹی کی اسامی پر کیا جاسکتا ہے۔
کسی بھی مضمون میں عام طور پر سیکنڈڈویژن سے ایم اے کرنے والے شخص کو کالج یا یونی ورسٹی میں لیکچرار بننے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں یہ گریڈ 17 کی گزٹیڈ پوسٹ ہوتی ہے۔
بی ایڈکے بعد ایم ایڈ کا امتحان کامیاب کرنے پر بھی کالج (بالخصوص ٹیچرز ٹریننگ کالج) میں لیکچرار بننے کا موقع مل سکتا ہے۔ ایم ایڈ کے نصاب میں مندرجہ ذیل لازمی مضامین شامل ہیں:
-1 تعلیم کی اسلامی بنیادیں
-2 نصاب کی تدوین ، منصوبہ بندی اور فروغ
-3 تعلیمی نفسیات
-4 جائزہ و رہنمائی
-5 تعلیمی تحقیق اور شماریات
-6 مقالہ یا مضمون نویسی
ان کے علاوہ مندرجہ ذیل چھ گروپس میں سے کسی ایک گروپ کے پانچ پرچوں کا امتحان ہوتا ہے۔
-1 تعلیمی نظم و نسق -2 نصاب کی منصوبہ بندی -3 جائزہ و رہنمائی -4 تدریسِ اساتذہ -5 تعلیم کا تاریخی ارتقا -6 تعلیمی نفسیات
لوئرسیکنڈری اسکولوں میں متعین ڈرائنگ ٹیچرز کو جے ایس ٹی بننے کے لیے انٹر گریڈ ڈرائنگ کا نصاب مکمل کرنا پڑتا ہے جب کہ سیکنڈری اسکول کے لیے انٹر گریڈ ڈرائنگ کے علاوہ ڈی ٹی سی، اے ٹی سی یا ایم ڈی کا امتحان پاس کرنا ضروری ہے۔
ایم ڈی کا امتحان صوبہ سندھ میں صرف حیدر آباد میں ہوتا ہے۔ یہ امتحان پاس کرنے والے ڈرائنگ ماسٹر کے طورپر ایچ ایس ٹی کے برابر گریڈ پاتے ہیں۔ اسی طرح ڈرل، کھیل کود، اور دیگر سرگرمیوں کے لیے اسکولوں میں جونیئر پی ٹی آئی اور سینئر پی ٹی آئی ہوتے ہیں جو بالترتیب جے ایس ٹی اور ایچ ایس ٹی کے مساوی ہوتے ہیں۔ سینئر پی ٹی آئی کے لیے بیچلر آف فزیکل ایجوکیشن (بی پی ایڈ) کا ایک سالہ نصاب مکمل کرنا ضروری ہے۔ کالجوں میں اس ڈگری کے حامل اساتذہ گریڈ 16 میں لیے جاتے ہیں۔
داخلہ اور فیس وغیرہ
پی ٹی سی میں داخلے کے لیے۔۔۔ میٹرک
(ترجیحاً سیکنڈ ڈویژن یا اس سے اوپر)
سی ٹی سی میں داخلے کے لیے ۔۔۔ انٹر
بی ایڈ میں داخلے کے لیے ۔۔۔ گریجویشن
ایم ایڈ میں داخلے کے لیے ۔۔۔ بی ایڈ
بی ایڈ میں داخلے کے وقت گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن کراچی میں معلوماتِ عامہ(جنرل نالج) پر مشتمل 50 نمبروں کا ایک امتحان ہوتا ہے۔ اس میں نمبروں کی ترتیب کے حساب سے جتنی نشستیں موجود ہوں اتنے ہی طلبہ و طالبات کو داخلہ دے دیا جاتا ہے، عمر کی زیادہ سے زیادہ حد مردوں کے لیے 33 سال اور خواتین کے لیے 35 سال مقرر ہے۔
مذکورہ بالا تمام تربیتی کورسز کے لیے ماہانہ فیس برائے نام ہے جو مختلف اداروں میں 15 روپے ماہانہ سے 25 روپے ماہانہ تک ہوتی ہے، جب کہ ایم ایڈ کی ماہانہ فیس 30 روپے ہے۔ کتابوں، تصاویر، نقشوں، چارٹ، ماڈل وغیرہ کے اخراجات کو شامل کرلیا جائے تو ایک کورس کی تکمیل تک پانچ سو سے ایک ہزار روپے تک اخراجات ہوتے ہیں۔
کام کی نوعیت
مختلف سطح پر تدریسی فرائض انجام دینے والوں کے کام کی نوعیت جدا جدا ہوتی ہے۔ پریپریٹری، نرسری اور کے جی کی کلاسیں اگرچہ سرکاری اسکولوں میں نہیں ہوتیں لیکن اچھے نجی تعلیمی اداروں میں ان جماعتوں کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سطح تک تدریسی عمل میں مصروف اساتذہ کو چوں کہ دو ڈھائی سال سے عموماً پانچ سال تک کی عمر کے بچوں سے واسطہ پڑتا ہے اس لیے ان اساتذہ میں محبت و شفقت کے جذبات کے علاوہ بچوں کی نفسیات سے واقفیت ضروری ہے۔ مشہور یونانی فلسفی افلاطون کے تعلیمی نظریات کے مطابق چھوٹے بچے نازک کونپلوں کی طرح ہوتے ہیں جو ہر مرحلے پر اساتذہ کی توجہ اور نگرانی کے محتاج ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس سطح پر زیادہ تجربہ کار اساتذہ ہونے چاہییں۔ غیر شادی شدہ اساتذہ کے بجائے بال بچوں والے اساتذہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ وہ بچوں پر سختی کرنے کے بجائے کھیل کود اور مختلف اقسام کی تفریحی سرگرمیوں کے ذریعے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اس مرحلے پر روایتی کلاسوں کے بجائے کھیلوں کے سامان ، رنگین تصاویر، چارٹ وغیرہ کی مدد سے کھلی فضا میں تدریسی عمل کو فروغ دیا جاتا ہے۔ پھر پرائمری کی سطح پر ہلکے پھلے مضامین کے ساتھ ساتھ تصاویر اور بیرون جماعت سرگرمیوں سے مدد لی جاتی ہے۔ سیکنڈری اور کالج کی سطح پر تعلیم و تربیت اورنظم و ضبط کے قدرے سخت اور سنجیدہ اصولوں پر عمل کرایا جاتا ہے۔ تاہم آؤٹ ڈور گیمز، پک نکس، مطالعاتی دورے وغیرہ بھی تدریسی عمل کا حصہ قرار پاتے ہیں۔
مواقع
اس وقت پاکستان میں گنجائش کے مطابق اساتذہ کی تعداد موجود ہے، لیکن تعلیم کے مسلسل فروغ، حکومت کی بڑھتی ہوئی دلچسپی، پرائیویٹ اسکولوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر آئندہ چند برسوں میں ان تمام نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع میسر آجائیں گے جو زیرِ تربیت ہیں۔ مناسب تعلیمی و تربیتی قابلیت اور اہلیت کے وہ اساتذہ جو نظم و نسق کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، کچھ سرمایہ کاری کرکے اپنے اسکول بھی قائم کرسکتے ہیں جہاں اگر معیار تعلیم کا انتظام ہو تو دوسرے بہت سے اساتذہ کو بھی ملازمت کے مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کو اگرچہ کم تنخواہیں دی جاتی ہیں لیکن اہل اور با صلاحیت اساتذہ کو اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ اسکولوں میں سرکاری اسکولوں سے بھی زیادہ تنخواہیں اور مراعات پیش کی جاتی ہیں۔ بعض بڑی کمپنیوں اور آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے اپنے اپنے اسکولوں اورانٹر میڈیٹ سطح تک کالج ہیں جو مناسب تجربہ اور قابلیت کے حامل اساتذہ کو اچھی تنخواہوں کے علاوہ بہت سی دوسری سہولتیں بھی فراہم کرتے ہیں۔
حکومت نے مختلف صوبوں میں ’’تعلیمی فاؤنڈیشن‘‘ قائم کی جس کا مقصد نجی شعبے میں تعلیمی اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی ہے۔ یہ فاؤنڈیشن، اسکول قائم کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ انتظامی صلاحیت کے حامل افراد اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر اپنے اسکول قائم کرسکتے ہیں۔
نجی شعبے میں ہر سال متعدد نئے اسکول قائم ہوتے ہیں اور معیاری اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح دیکھا جائے تو تدریس کا پیشہ پر خلوص، محنتی اور اپنے کام سے لگن اور دلچسپی رکھنے والے خواتین اور حضرات کے لیے روشن مواقع کا شعبہ ہے۔
متعلقہ شعبے /پیشے
تدریس کے مختلف کورسزمکمل کرنے کے بعد اساتذہ اسکولوں کے ہیڈماسٹر، انسٹرکٹر سپروائزر ، ایجوکیشن آفیسر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر جیسی اسامیوں پر براہِ راست تقرری کے اہل ہوتے ہیں۔ محکمہء تعلیم میں سیکشن آفیسر اور تعلیمی منصوبہ بندی کے شعبوں میں بھی تربیت یافتہ اساتذہ کو ترجیح دی جاتی ہے۔
مونٹیسوری اور کنڈر گارٹن ٹیچر ٹریننگ
گزشتہ دو عشروں کے درمیان پاکستان میں پری پرائمری اسکولوں کو خاصا فروغ حاصل ہوا ہے۔ چھ سال کی عمر کو پہنچنے پر ابتدائی مدرسہ( پرائمری اسکول) کی پہلی جماعت میں داخل کرانے اور باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے، بچے کو ڈھائی سے تین سال کی عمر میں مونٹیسوری اسکول یا کنڈر گارٹن نرسری میں داخل کرا دیا جاتا ہے۔ مونٹیسوری اور کنڈرگارٹن، بچوں کی پڑھائی کے ان دونوں طریقوں کا مقصد یہ ہے کہ چھوٹی عمر میں بچوں کی فطری صلاحیتو ں اور رجحان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کھیل اور دیگر دلچسپیوں کے ذریعے انھیں مہذب زندگی کی بالکل ابتدائی باتوں کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ وہ ان پر بوجھ نہ بنے۔
مونٹیسوری نظامِ تعلیم اور اس کی تربیت
اس نظام میں استاد بچوں کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھانے کے بجائے ان کے ساتھ مل کر اور ان میں شامل ہوکر انھیں ایک مرتب کردہ طریقے کے مطابق کھیل اور دیگر مشاغل میں مصروف رکھتا ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ خودبچوں کو حرکت و عمل(ایکٹیویٹی) کا موقع دیا جائے اور انھیں ان کے اپنے ماحول کے مطابق کھیل، کھلونوں اور دیگر معاون اشیا سے’’سیکھنے‘‘ کا موقع فراہم کیا جائے۔ سوسائٹی کے بچوں کے لیے کنڈر گارٹن کی کلاس اور اس کا ماحول اور وہاں تدریسی اشیا مختلف ہوں گی اور لیاقت آباد کے بچوں کے لیے کلاس میں مختلف ماحول اور مختلف اشیا ہوں گی۔ ایسا ماحول اور اشیا جو اِن کے گھروں کے ماحول اور اشیا سے مطابقت رکھتی ہوں۔
کنڈر گارٹن نظامِ تعلیم اور اس کی تربیت
پاکستان میں کنڈر گارٹن کی ٹریننگ کا فی الحال کوئی باقاعدہ ادارہ نہیں ہے۔ کراچی میں گارڈن روڈپر واقع ٹیچرز ریسورس سینٹر میں سال کے دوران 120 گھنٹوں کا ایک تربیتی ورک شاپ منعقد کیا جاتا ہے جس میں دلچسپی رکھنے والے لڑکے اور لڑکیاں شرکت کرتے ہیں۔ اس تربیتی کورس کی فیس تقریباً ساڑھے تین ہزار روپے ہے۔ ایک ورک شاپ میں 22،23 امیدواروں کو شامل کیا جاتا ہے۔ کنڈر گارٹن نرسری اسکول کے استاد کو 12 سو روپے سے دو ہزار روپے تک تنخواہ ملتی ہے چوں کہ ان دونوں شعبوںیعنی مونٹیسوری اور کنڈر گارٹن میں تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی ہے اس لیے جو نوجوان طلبہ اور طالبات پڑھانے کا شوق رکھتی ہیں ان کے لیے مستقبل میں مواقع موجود ہیں۔
کنڈر گارٹن کے ورکشاپ کورس کے بارے میں مزید معلومات کے لیے اس پتے پر رابطہ کیجیے :
ڈائریکٹریس
ٹیچرز ریسورس سینٹر
67 بی، گارڈن روڈ ، کراچی