Connect with us

متفرق

نوجوانوں کو بچپن میں جنسی تعلیم دی جانی چاہیے؟

Published

on

نوجوانوں کو بچپن میں جنسی تعلیم دی جانی چاہیے؟

کامیاب اور خوش و خرم زندگی گزارنے کے لیے انسان کا تن درست اور صحت مند ہونا نہایت ضروری ہے۔ ذہن اور جسم صحت مند ہوں تو انسان زندگی کے ہر مرحلے میں کامیابی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ جنس، انسان کی صحت اور زندگی کا نہایت اہم حصہ ہے اور کسی بھی انسان کی ذہنی اور جسمانی صحتمیں اس کی جنسی صحت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ہمارے معاشرے میں بعض غیر ضروری پابندیوں اور سماجی رویوں کی وجہ سے،جنس کے حوالے سے ایسی ضروری باتوں سے آپس میں گریز کیا جاتا ہے جو صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اہم ہوتی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچے، جب بچپن سے سنِ بلوغت میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں اور اس وقت ان کے جسم اور ذہن میں جو اہم تبدیلیاں ، خصوصاً جنس کے حوالے سے جو تبدیلیاں آرہی ہوتی ہیں، ان کے بارے میں انھیں صحیح معلومات اور رہنمائی کہیں سے دستیاب نہیں ہوتی ۔یہ لاعلمی ان کے لیے اُلجھن ، پریشانی اور بعض اوقات خوف کا باعث ہوتی ہے۔ اس اہم دور میں نوجوانوں کی صحیح رہنمائی نہ کی جائے تو وہ ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار بھی ہوسکتے ہیں ،غلط لوگوں اور ذریعوں سے، نامکمل اور گم راہ کن معلومات سے اپنے لیے غیر ضروری پریشانیاں پیدا کرلیتے ہیں۔ حکیم عبدالحنان صاحب، ہم درد کالج آف ایسٹرن میڈیسن کے پرنسپل ہیں اور اس کتاب کے مرتب کی درخواست پر انھوں نے نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے یہ مضمون لکھا ہے جس کا مطالعہ بچپن سے نوعمری میں داخل ہونے والے ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ (مرتب)

کیانوجوانوں کو بچپن میں جنسی تعلیم دی جانی چاہیے؟

یہ سوال کبھی نہ کبھی آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں ضرور ابھرا ہوگا۔ چوں کہ بلوغت تک پہنچنے میں جن منازل و تجربات نیز یقین و بے یقینی کی جن کیفیات سے آپ گزرے ہوں گے، انھوں نے یہ سوچنے پر ضرور مجبور کیا ہوگا کہ آخر جب ہرطرح کی متعلقہ تعلیم ہمیں دی گئی اور زندگی کے ہر نشیب و فراز سے آگاہ کیا گیا تو آخر اس اہم ترین معاملے میں ہمارے والدین، اساتذہ اور دیگر بزرگوں نے کیوں خاموشی اختیار کی؟یا آپ نے کبھی اس ذیل میں از خود یا کسی دوسرے کے ذریعے جنسی اعضا اور وظیفہء جنسی کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ حالاں کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اور بچپن سے لڑکپن میں داخل ہوتے وقت یہ سوالات آپ نے ضرور کیے ہوں گے کہ آپ کی آواز دورنگی یعنی کبھی باریک اور کبھی بھاری کیوں ہو رہی ہے ؟ یا گردن میں سامنے کی طرف ایک نوکدار سخت چیز کیوں ابھر رہی ہے؟ یا چہرے پر ایک دم رواں کیوں اگنے لگا؟یا قد تیزی کے ساتھ کیوں بڑھنے لگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ مگر جو نشوونما اور تبدیلیاں جنسی اعضا میں ہورہی تھیں جو دراصل بلوغت کی نشانی ہیں اور خواب کی حالت میں جنسی مادوں (مادہ منویہ) کا جو اخراج خواب کی صورت میں ہو رہا تھا، اس کے بارے میں کبھی بھی اپنے والد یا کسی بزرگ سے تذکرہ کرنے کی جراء ت نہیں کر پائے ہوں گے۔
دراصل ہمارے ماحول اور معاشرے میں جنس کو اور خصوصاً جنسی تعلیم کو وہ مقام اور مرتبہ دیا ہی نہیں گیا جو دیگر چیزوں کو دیا گیا۔ اسے ہمیشہ ایک شجرِ ممنوعہ کے طور پر سمجھا اور سمجھایا گیا کہ جو بھی اسے استعمال کرے گا یا اس قریب جائے گا وہ برا کام کرے گا اور جنت سے نکال دیا جائے گا۔ جنس کے بارے میں بچپن ہی سے آپ کے ذہن میں یہ بیٹھا ہوا ہے کہ یہ ایک گندا اور گناہ کا کام ہے اور اس سے بچ کر چلنا چاہیے حالاں کہ عمر کے ساتھ فطری طور پر جب جنسی اعضا میں تبدیلیاں آتی ہیں اور جنسی خواہشات سر اٹھاتی ہیں تو ان سے خود کو بچانا ممکن نہیں رہ جاتا اور صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے طریقے اور راستے اختیار کرلیے جاتے ہیں جو غیر فطری ہوتے ہیں۔ دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ جنسی قوتوں کو بیدار کرنے اور ایک دوسرے کے لیے جنسی کشش پیدا کرنے کے لوازمات اور ماحول ہماری سوسائٹی خوب فراہم کرتی ہے۔ ادب، شاعری، مصوری، فلمیں، ٹی وی، اشتہارات، مخلوطماحول یہ سب مردوں اور عورتوں کے جنسی تعلق کے ایک لطیف پیرائے کے مظاہر ہوتے ہیں۔

آپ بازار سے کوئی مشین یا کسی طرح کے آلات خرید کر لاتے ہیں ، اس کا ڈبہ کھولتے ہی سب سے پہلے آپ وہ چھوٹی سی کتاب تلاش کرتے ہیں، جس میں اس کے بارے میں بنیادی معلومات ہوتی ہیں کہ وہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اس سے کیا کام لیے جاسکتے ہیں اور اسے کیسے استعمال کرنا چاہیے اور کس طرح اس کا استعمال خطرناک اور نقصان دہ ہوسکتا ہے؟ مگر جنس کے بارے میں کبھی بھی یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ ہم صحیح اور مکمل تعلیم حاصل کریں تاکہ ہمیں اس کی اچھائی اور برائی کی حدود کا اندزاہ ہوجائے۔ حالاں کہ اعضا میں تبدیلی اور احساسات کی جولانی اگر صحیح جنسی معلومات کے حصول کےبعد ہو تو بلوغت شاید آپ کے لیے کوئی حیرت اور تعجب کی بات نہ ہو اور آپ اس طوفان سے مقابلے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہوں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہمارے یہاں، خصوصاً اردو زبان میں ایسے صحت مند جنسی لٹریچر کی بہت کمی ہے جو صحیح معنوں میں جنسی تعلیم دے سکے۔ دوسری زبانوں میں اس طرح کا جو مواد ملتا ہے وہ ہماری تہذیب اور معاشرت سے پوری طرح میل نہیں کھاتا۔ یہاں اگر اس طرح کی معلومات دینے والے مضامین تحریر کیے جائیں تو عام اخبارات و رسائل انھیں شائع کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو انھیں نشر نہیں کرتے کہ یہ تو سب کے ہاتھوں میں جاتا ہے اور اسے سب دیکھتے یا سنتے ہیں، اس میں اس طرح کی باتیں کس طرح سے پیش کی جاسکتی ہیں۔ والدین اس موضوع پر بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ اساتذہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے حتیٰ کہ چند سال پہلے تک طبی در س گاہوں میں مردانہ جنسی امراض نہیں پڑھائے جاتے تھے کہ چوں کہ کمرہ جماعت میں طلبہ و طالبات دونوں ہی موجود ہوتے ہیں، اس لیے ان موضوعات پر کس طرح سے گفتگو کی جاسکتی ہے ؟ جب کہ ان ہی طلبہ و طالبات کی موجودگی میں زنانہ جنسی امراض پوری تفصیل کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں۔ مگر ان تمام دشواریوں کے باوجود اگر کوششکی جائے تو ایسے ادارے اور افراد موجود ہیں جو صحیح رہنمائی کرسکیں ۔

جنس اگر واقعی اس قدر گندی چیز ہوتی تو کلام پاک میں اس کا تذکرہ جابجا کیوں آتا؟ کلام پاک میں اکثر مقامات پر عورت و مرد کے تعلقات کے ساتھ ساتھ نطفے کے استقرار اور اس کے بڑھنے کے مدارج کو بڑے عالمانہ اور سائنٹیفک انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ زمانہء حمل اور دودھ پلانے کی مدت متعین کی گئی ہے نیز یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ کس طرح جنسی ملاپ جائز ہے بلکہ عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور کن کن طریقوں سے اس کا ارتکاب غلط اور گناہ ہے ۔
دراصل یہ انسانی سوچ اور اس کی ذہنی تربیت کی بات ہے کہ وہ کس بات کو کس انداز میں لے رہا ہے ورنہ جنسی عمل ایک عبادت ہے جسے پیغمبرانِ کرام ؑ اور بزرگانِ دین نے بھی سر انجام دیا۔ جنسی عمل ایک علم ہے جس پر حکما ، فلاسفہ اور سائنس دانوں نے کام کیا۔ جنسی عمل ایک ضرورت ہے، جس کے تحت یہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی جنسی عمل ایک گناہ، ایک گندگی اور ایک گالی ہے جو بہت سی بیماریوں اور برائیوں کا باعث بنتا ہے۔ مگر اس عبادت و گناہ کے درمیان اس وقت ہی حدِ فاصل کھینچی جاسکتی ہے جب آپ کو اس کے بارے میں پورا پورا علم ہو۔
عموماً ہوتا یہ ہے کہ بلوغت کے وقت جب جنسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور ان سے آپ حیران و پریشاں ہوتے ہیں تو بالعموم اپنے بے تکلف دوستوں سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا ملازمین سے سوال کرتے ہیں۔ یا پھر ادنیٰ گھٹیا لٹریچر جو ہر جگہ موجود ہے، اس سے واسطہ پڑتا ہے۔ جنس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے یہ تمام راستے اور طریقے غلط ہیں، کیوں کہ ان ذرائع کے پاس نہ تو صحیح معلومات ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ رہنمائی کرسکتے ہیں۔ بعض نوجوان یقیناًمعالجین سے بھی رجوع کرتے ہیں مگر آگے ان کی قسمت ہے کہ وہ کسی پڑھے لکھے معالج کے پاس پہنچ رہے ہیں یا جنسی مراکز کے 70 سالہ سنیاسی باوا کے ہتھے چڑھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی نوجوان بد خوابی سے حیران و پریشاں ہو کر کسی تعلیم یافتہ معالج کے پاس علاج کے لیے پہنچے گا تو وہ اسے سمجھا دے گا کہ یہ ایک فطری عمل ہے جو کہ اس عمر میں شروع ہوتا ہے اور ایک ماہ میں تین چار بار ایسا ہونا کوئی بیماری نہیں ہے اور آپ کو کسی طرح کے علاج کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر جنسی مراکز والے اسے تمام امراض اور کم زوریوں کی جڑ گردانیں گے اور مادہ منویہ کے ایک قطرے کی قوت کو 100 قطرے خون کے برابر ثابت کریں گے اور یہ ذہن نشین کرا دیں گے کہ اگر ایسا ہوتا رہا اور اس کا مکمل علاج نہ کرایا گیا تو نا صرف تمام ذہنی و جسمانی صلاحیتیں اور قوتیں جواب دے جائیں گی بلکہ آگے چل کر شادی شدہ زندگی بھی ناکام ہوجائے گی۔ ہر دو صورتوں میں جو نتائجبرآمد ہوں گے انھیں آپ بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں۔

دوا خانوں اور مطبوں میں جو مریض جنسی علاج کے لیے آتے ہیں، یقین کیجیے کہ ان میں سے نوے فیصد ذہنی و نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔ انھیں اگر جنسی شکایات ہوتی بھی ہیں تو وہ بہت عام اور سیدھی سادھی سی ہوتی ہیں جن کا آسانی کے ساتھ علاج ممکن ہے۔ مگر خود ان کی معلومات ان امراض کے بارے میں اس قدر خطرناک و خوف ناک ہوتی ہیں اور وہ ان سے اس حد تک ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں کہ اس ذہنی کیفیت اور ان کی غلط فہمیوں کو رفع کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات چند افراد کو ضرورت نہ ہوتے ہوئے بھی ہلکی پھلکی ادویہ تجویز کرنا پڑتی ہیں تاکہ ان کی تشفی ہوجائے کہ علاج ہورہا ہے ورنہ خطرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غیر مطمئن ہو کر کسی اشتہاری جنسی معالج کے چنگل میں نہ آجائیں اور عمر بھر کے لیے واقعی مریض بن جائیں۔ ایسے مریضوں کو محض دماغ و اعصاب کو طاقت دینے اور نظامِ ہضم کو درست کرنے والی ادویہ تجویز کردی جاتی ہیں تاکہ ان کی قوتِ ارادہ اور قوتِ فیصلہ مضبوط ہوسکے ۔
جنسی تعلیم کی ضرورت کا احساس بعض بیدار ذہنوں کو کس طرح سے ہوتا ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایئے کہ اب سے چند سال پہلے مجھے لندن سے ایک خاتون کا خط ملا جن کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا اور ایک بیٹا اور بیٹی بلوغت کے قریب پہنچ رہے تھے۔ انھوں نے اپنے خط میں لکھا کہ ’’جب میری بیٹی بالغ ہونے لگی تو میں نے اسے جنسی اہمیت کی ضروری باتیں بتلائیں جو کہ ایک ماں اپنی بچی کو بتلاتی ہے اور اب جب کہ میرا بچہ جوان ہورہا ہے تو مجھے خیال آیا کہ اس عمر میں بیٹوں کو ضرور ان کے والد جنسی تعلیم دیتے ہوں گے مگر بیٹے کے ساتھ مجبوری یہ ہے کہ ان کے والد انتقال کرچکے ہیں۔ اب میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں اس خلا کو کس طرح سے پر کروں، اس لیے آپ کو خط لکھ رہی ہوں کہ اگر آ پ کی نظر میں کوئی ایسا لٹریچر ہو جو بچے کو ضروری باتوں سے آگاہ کرسکے تو براہِ نوازش مجھے مطلع کیجیے ۔ برطانیہ میں جو اس طرح کا لٹریچر دستیاب ہے وہ ہمارے ماحول اور تہذیب کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ ‘‘

جنسی تعلیم کی کمی لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں میں بھی عام ہے بلکہ ان میں صورتِ حال زیادہ سنگین ہے۔ چوں کہ لڑکیوں کو باہر نکلنے اور لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کے مواقع کم ملتے ہیں، اس لیے اِدھر اُدھر سے جو تھوڑی بہت معلومات لڑکوں کو ہوجاتی ہیں، لڑکیاں اس سے بھی نابلد رہتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شادی کے بعد وہ شوہر کو اپنا مونس ہمدرد اور رفیق سمجھنے کے بجائے اس سے خوف زدہ رہتی ہیں اور اس کی حیثیت ان کی نظر میں ایک شہوانی بھیڑیئے سے مختلف نہیں ہوتی۔ یہ ڈر اور خوف ان کے ذہنوں میں اس طرح بیٹھ جاتا ہے کہ وہ سہمی ہوئی آفت زدہ ہستیاں بن جاتی ہیں۔ ابھی چند ماہ پیش تر ایک شادی ہوئی۔ لڑکے کی عمر ۲۲ سال تھی اور لڑکی کی ۸۱سال ۔ لڑکی کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں بہت سخت پابندیاں رکھی جاتی ہیں۔ لڑکی کو ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتلایا گیا صرف رخصتی کے وقت گھر کی کسی بزرگ خاتو ن نے اتنا کہہ دیا کہ ’’وظیفہ زوجیت ایک بہت تکلیف دہ عمل ہے تمہیں صبر و برداشت سے کام لینا ہوگا ‘‘۔ ان کی اس نامکمل تعلیم کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ لڑکی سخت خوف زدہ ہوگئی۔ تین ماہ گزرنے کے بعد اس کے شوہر نے بتایا کہ وہ جب بھی قربت کا ارادہ کرتا ہے ،خوف کی وجہ سے اس کی بیوی پر دورے جیسی تشنجی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بے کیفی اور جھنجھلاہٹ کی زندگی بسر کررہا ہے۔ یہ سب نامکمل جنسی تعلیم کا نتیجہ ہے ۔
اس ذیل میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں جو میں نے اپنی تیس سالہ معالجانہ زندگی میں اخذ کی ہے اور وہ یہ کہ جنسی معاملات سے بالکل علیحدہ رہنا یا اسے اخلاق سے گری ہوئی چیز ، گندگی یا گالی سمجھنا بھی جنسی کم زوری پیدا کردیتا ہے۔ چوں کہ جنس کے بارے میں انسان کے خیالات جنسی اعضا اور ہارمونز کے بننے پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ انسانی جسم کی یہ خصوصیت ہے کہ جن اعضا سے کام نہ لیا جائے یا کم لیا جائے وہ کم زور ہوجاتے ہیں۔ آپ کا ذہن بچپن سے ہی جس نظام اور اعضا کی نفی کررہا ہو اور اسے برا اور گناہ سمجھ رہا ہو وہ کیسے جسم کے اندر پروان چڑھ کر مضبوط اور توانا ہوسکتے ہیں ؟ ایسے لوگ شادی کے بعد بہت حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ اس قدر پاک باز زندگی بسر کرنے کے بعد بھی انھیں جنسی مسائل کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے ۔
جنسی آزادی اورجنسی تعلیم میں بڑا فرق ہے ۔ جنسی آزادی نے امراض زہراویہ(وی ڈی) اور ایڈز جیسے تحفے دنیا کو دیے ہیں جب کہ جنسی تعلیم ، تناسلی اعضا کے صحیح طریقے، صحیح وقت پر استعمال اور ان کی ضرورت و اہمیت کی جانب توجہ دلاتی ہے تاکہ انسان اپنی شہوت کو قابو میں رکھ سکے۔ اس طرح سے جسم میں پیدا ہونے والی جنسی تبدیلیاں اور جنسی کشش جب رونما ہوگی تو آپ کا ذہن اس کے لیے پہلے سے تیار ہوگا جس کی وجہ سےڈگر سے ہٹنے کے امکانات کم ہوجائیں گے ۔

یہ معلوم کرنا کہ کس عمر میں جنسی تعلیم حاصل کرنا چاہیے بہت مشکل سوال نہیں ہے۔ جب بھی جنسی اعضا میں تبدیلیاں شروع ہوں اور جنسی خواہشات پیدا ہونے لگیں وہی وقت سب سے مناسب ہے۔ اس کے لیے جو بھی سوالات ذہن میں اٹھیں انھیں بہت اچھے الفاظ اور پیرائے میں والد یا استاد یا خاندان کے کسی ایسے قریبی بزرگ سے دریافت کرلینا چاہیے یا اپنے خاندانی معالج سے بھی پوچھا جاسکتا ہے ۔ بس یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ ہمارے ملک میں جنس کو دو بالکل مختلف زاویوں سے دیکھا گیا ہے۔ ایک طب مشرق یا یونانی نظریہ ہے اور دوسراا یلوپیتھی یا مغربی نظریہ ہے ۔ ایلوپیتھ حضرات غیر فطری جنسی اعمال خاص طو رپر ’’ہاتھ کے استعمال‘‘ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اسے جنسی ہیجان کم کرنے کا ایک اچھا طریقہ بتلا کر ایک طرح سے ہمت افزائی فرماتے ہیں۔ اطبا عموماً اسے اچھا فعل نہیں مانتے اور اس سے منع کرتے ہیں اور یہی میرے خیال میں بہتر بھی ہے۔ چوں کہ ہر وہ طریقہ جو فطرت کے خلاف ہو، اس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ جسم سے خارج ہونے والی رطوبت اگر اپنی طبعی مقدار سے زیادہ خارج ہونے لگے تب بھی صحت پر ان کے مضر اثرات پڑنالازمی ہے۔ اگر کوئی شخص ضرورت سے زیادہ تھوکنے لگے یا اسے پیشاب جو کہ ایک فضلہ ہے زیادہ آنے لگے تو اس کے بھی مضر اثراتصحت پر پڑنا لازم ہے ۔

جنسی معاملات میں جو غلط فہمیاں ہمارے معاشرے میں عام ہیں اور انھیں مرض نہ ہوتے ہوئے بھی مرض سمجھ کر معالجین کے پاس جایا جاتا ہے اور خود کو کم زور اور بیمار تصور کیا جاتا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں :
احتلام یعنی نیند کی حالت میں خواب آکر یا بغیر خواب کے مادہ منویہ کا خارج ہوجانا۔ یہ اگر ماہ میں تین چار بار ہورہا ہے تو ایک طبعی صورتِ حال ہے نہ اس سے پریشان ہونے کی ضرورت ہے اور نہ علاج کی۔ اگر اس سے زیادہ ہوں تو بہت سیدھے سادھے علاج سے کمی آجاتی ہے۔
جریان، یعنی پیشاب سے پہلے یا بعد میں چند لیس دار قطروں کا خارج ہوجانا یا جنسی خیالات کے وقت شفاف لیس دار قطروں کا خارج ہونا۔ یہ بھی کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ ایک طبعی صورت حال ہے اس سے نہ صحت پر اثر پڑتا ہے اور نہ جنسی طاقت پر۔ اگر اس میں بہت زیادتی ہوجائے تو مناسب علاج سے آرام آجاتا ہے۔ خصیوں (ٹیٹسی کلز ) کا نیچے لٹکنایا سکڑ جانا۔ اسے عام طور پر بیماری سمجھا جاتا ہے جب کہ یہ قدرتی طور پر درجہ حرارت کو درست رکھنےکے لیے ہوتا ہے تاکہ اسپرمس کو کم یا زیادہ درجہ حرارت سے نقصان نہ پہنچے ۔

عضو مخصوص( پینس) کی جسامت کا کم ہونا یا اس میں کمی محسوس ہونا یا اس پر ابھری ہوئی رگوں کا نظر آنا۔ لوگ اس سے عام طور پر بہت خوف زدہ ہوجاتے ہیں، حالاں کہ ان میں سے کوئی بھی مرض نہیں ہے اور نہ ہی اس سے وظیفہ جنسی ادا کرنے میں کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ استقرار حمل میں۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی چیزیں جو مرض کے نہ ہوتے ہوئے بھی مرض سمجھی جاتی ہیں اور ان کا ہفتوں اور مہینوں علاج کرایا جاتا ہے اگر ان کے بارے میں صحیح معلومات بروقت ہوجائیں تو خواہ مخواہ ذہن پریشان نہ ہو اور مال کے نقصان سے بھی محفوظ رہا جائے۔
جنس اور جنسی تعلیم کے ذیل میں ہمارے معاشرے میں جس طرح کے خیالات موجود ہیں اس پر ازسرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے بارے میں اپنے رویوں میں تبدیلی لانالازمی محسوس ہوتا ہے ۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *